Qutub e Alam Sheikh Makhdoom Shah Mina (Quddisa Sirrohu)

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0


قطب عالم شیخ مخدوم شاہ مینا قدس سرہٗ

نام ونسب اور ولادت باسعادت:
آپ کا اسم گرامی محمد بن قطب الدین بن عثمان صدیقی لکھنوی ہے اور عرفی نام شاہ مینا ہے۔ لکھنؤ (یوپی) کے محاورہ میں ’’مینا‘‘ ہنر مند اور باعزت سردار کو کہتے ہیں۔ آپ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت ماہ رمضان المبارک ۸۰۰ھ میں ہوئی ۔
ابتدائی احوال:
آپ کے والد محترم کا نام ’’شیخ قطب الدین‘‘ ہے، جو دہلی سے ہجرت کر کے جون پور تشریف لائے اور وہاں سے’’ دلمؤ‘‘ میں آکر قیام پذیر ہوگئے۔ پھر وہاں سے حضرت حاجی الحرمین شیخ قوا م الدین لکھنوی قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ دنوں کے بعد شیخ قوام الدین نے حکم دیا کہ تم نکا ح کر لو تا کہ تمھاری نسل سے سلسلۂ چشتیہ کا فروغ ہو۔ جب آپ پیدا ہوئے اور حضرت قوام الدین کو اس بات کی خبر ہوئی تو ہندی زبان میں فرمایا :’’آئو مورے مینا ‘‘اسی وجہ سے آپ کا عرف ’’شیخ مینا‘‘ ہوا۔ مشہور ہے کہ ایام حمل میں آپ کی والدہ ماجدہ کے بطن مبارک سے ذکر واذکار اور تلاوت قرآن کی آواز آتی تھی اور لوگ بارہا کان لگاکر اس آواز کو سنتے تھے اور تعجب کیا کرتے تھے۔ عہدِ شیر خواری میں رمضان کے مہینے میںدن میں دو دھ نہ پیتے۔جب آپ کی والدہ سلاتیں اور رات میں بیدار ہوتیں تو آپ کو چار پائی کے نیچے سجدے کی حالت میں پاتیں۔دوسال کی عمر میں والد گرامی سے کہتے کہ یہ چڑیاں جو اڑ رہی ہیں مجھے پکڑکر دو۔ والد گرامی چڑیوں کی طرف متوجہ ہوکر فرماتے: تمھیں شیخ مینا بلارہے ہیں۔ چڑیاں آتیں اور قریب میں بیٹھ جاتیں اور اس وقت تک بیٹھی رہتیں جب تک آپ واپس جانے کی اجازت نہ دیتے۔ 
تعلیم وتربیت :
منقول ہے کہ شیخ مخدوم شاہ مینا کو جب مکتب بھیجا گیا تو آپ نے پہلے ہی دن ’’اب ت ث ‘‘کے وہ رموز و حقائق بیان فرمائے  جن کو سن کر تمام حاضرین انگشت بدنداں رہ گئے اور معلم کو یہ یقین ہو گیا کہ آپ مادر زاد ولی ہیں۔ جب آپ مکتب پہنچتے تو آنکھیں بند کر کے ذکر میں مشغول رہتے، جب رخصت کا وقت قریب آتا تو لڑکوں کے شور سے آنکھیں کھولتے اور استاذ کو سلام کہہ کر گھر واپس ہوتے۔ سات سال کی عمر تک حضرت شاہ قوام الدین کے سایۂ تربیت اور ظلِ رحمت میں رہے۔ اس کے بعد حضرت مخدوم سید راجو قتال کے بعض خدام سے ذکر کی تلقین لی اور اس پر عمل کیا۔ اور شیخ اعظم ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے، جو مشاہیر علمائے وقت سے تھے، شرح وقایہ کی عبارات پڑھنے میں اس قدر باریکیاں بیان کرتے کہ شیخ اعظم ثانی باوجو د یہ کہ بہت بڑے عالم تھے آپ سے ہر دن ایک نیا نکتہ حاصل کرتے۔ جب عبادت کی بحث ختم کر چکے تو فرمایا کہ نکا ح وغیرہ کے مسائل سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔مجھے دیگر معاملات در پیش ہیں ۔ عوارف المعارف پوری کتاب پڑھی۔ آخر کار چند مدت میں اس قدر باصلاحیت ہو گئے کہ علمائے کرام اکثر مقامات میں علوم عقلی ونقلی سے آپ سے تحقیق کراتے ۔ جب بارہ سال عمر ہوئی تو مرتبہ قطبیت پر فائز ہوئے ۔ آپ کی قطبیت کو ظاہر کرنے والے قاضی شہاب الدین آتش پر کالہ ہیں، جو شاہ بدیع الدین مدار کے مرید تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ قاضی شہاب ایک دن اپنے پیر کی قدم بوسی کے لیے روانہ ہو ئے جب لکھنؤ پہنچے تو وہاں کے کثیر باشندوں نے اپنی حاجتیں عرض کیں۔ انھوں نے وہ ساری حاجتیں لکھیں اور اپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ رخصت کے وقت پیر کی بارگاہ میں حاجتوں کے تعلق سے عرض گذار ہوئے۔ آپ نے فورا ان سے فرمایا: حاجت مندوں سے کہہ دو کہ شیخ مینا کی خدمت میں رجوع کریں ؛ کیوں کہ قطبیت ان کے حوالے ہوئی ہے۔ لوگ آپ کی بارگاہ میں رجوع کرتے اور آپ سب کی حاجتیں اور مرادیں پوری فرماتے۔
پندرہ سال کی عمر میں مخدوم قوام الدین حاجی الحرمین قدس سرہٗ کے مرید اور مخدوم سید راجو قتال قدس سرہٗ کے خلیفہ حضرت مخدو م شیخ سارنگ قدس سرہٗ کے مرید ہوئے۔ ہر لمحہ ذکرِ الٰہی میں مصروف رہا کرتے۔ عبادات میں اس قدر خشیت تھی کہ تنگ جگہوں کا استعمال کرتے تاکہ شیطان کا حملہ نہ ہوپائے۔ مسلسل روزے رکھتے اور ہر لمحہ اس بات کی فکر میں لگے رہتے کہ نفس کو آرام نہ ملے۔ جہاں تک ہوسکتا نفس کو مشقت واذیت میں ڈالتے رہتے۔ حلم وبردباری میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ ایک دن کسی حجام نے گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ نے اسے کچھ دے کر لطف کے ساتھ رخصت کیا اور معذرت سے پیش آئے۔جس شخص سے بھی تکلیف پہنچتی اسے معاف فرمادیتے اور نہایت خندہ پیشانی سے ملتے۔ قبلہ کا احترام اس قدر تھا کہ کبھی قبلے کی جانب پاؤں پھیلاکر نہ اٹھتے نہ بیٹھتے۔
آپ کے عظیم الشان مرید وخلیفہ مخدوم شیخ سعدالدین خیرآبادی قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
پیر دستگیر، قطبِ عالم پر جاڑوں میں نیند کا غلبہ ہوتا تو کبھی آپ کرتا اور کبھی ٹوپی ٹھنڈے پانی میں تر کرکے پہن لیتے اور شاہ قوام الدین کی خانقاہ کے صحن میں رات بھر ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے۔ بسا اوقات وضو کے لیے پانی گرم کرتے، اگر آگ کی حرارت کی وجہ سے نفس کسی قدر آرام پاتا یا سستی دیکھتے تو فورا اٹھتے اور ٹھنڈے پانی سے غسل کرتے۔ میں بیس سال قطبِ عالم کے حضور حاضر رہا، آپ کو کبھی بھی قبلہ کی جانب پائوں پھیلاکر یا اٹھاکر بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ تمام معاملات میں رضائے الٰہی ملحوظ رکھتے۔ ہر وقت باوضو رہتے، یہاں تک کہ اگر آپ کو حدث لاحق ہوجاتا تو وضوخانے تک پہنچنے سے پہلےتیمم کرلیتے، اس خوف سے کہ کہیں حالتِ ناپاکی میں روح پرواز نہ کرجائے۔  مہمان نوازی کی صفت آپ میں بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا کہ مہمان آجاتے اور کھانا تھوڑا ہوتا، پھر بھی آپ کھانا سامنے لے آتے اور چراغ درست کرنے کے بہانے چراغ بجھادیا کرتے اور مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتے، مگر کھانے سے احتراز کرتے، تاکہ مہمان سیر ہوکر کھاسکے۔ حضرت شاہ مینا قدس سرہٗ مجرد اور پارسا تھے۔ دولوگوں کو آپ نے اپنی خلافت عطا کی۔ ایک مخدوم شیخ سعدخیرآبادی اور دوسرے شیخ قطب الدین ، جو صاحب سجادہ اور آپ کے بھتیجے تھے۔ 
وفات:
آپ کی وفات ۲۳؍ صفر المظفرمطابق ۸۸۴ھ کو ہوئی ۔ آپ کا مزار مبارک شہر لکھنؤ میں زیارت گاہِ خاص وعام ہے۔ 

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں