شیخ محمد رشید مصطفیٰ عثمانی جونپوری
ابرار رضا مصباحی
علم وتصوف کی دُنیامیں آپ کی قد آور شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے آپ گیارہویں صدی ہجری کے جلیل القدر علما وفضلا اور عظیم المرتبت ، فقرا وصوفیا میں شمار کیے جاتے ہیں۔
نام ونسب:
آپ کا اسم گرامی محمد رشید مصطفیٰ، کنیت ابوالبرکات، لقب شمس الحق ہے،جبکہ لوگ آپ کو قطب الاقطاب اور دیوان جی کے نام سے بھی یادکرتے ہیں۔ آپ مذہباً حنفی، مشرباً چشتی اور نسباً عثمانی ہیں۔ بارہویں پشت میں آپ کے اجداد میں حضرت مخدوم یخشیٰ عثمانی رومی قدس سرہٗ بڑے باکمال اور صاحب حال بزرگ گزرے ہیں۔وہ سلطان المشائخ سیدنا حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرید اور تربیت ونعمت یافتہ تھے اوران کا سلسلۂ نسب امیر المؤمنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ، اس طرح سے آپ نسباً عثمانی ہوئے۔
ولادت باسعادت:
آپ مورخہ۱۰؍ذی قعدہ ۱۰۰۰ھ میں شیر از ہند ضلع جونپور یوپی کے موضع برونہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت شیخ عبدالجلیل لکھنؤی (متوفی۱۰۴۳ھ) قدس سرہٗ جب برونہ تشریف لائے تھے تو انھوں نے آپ کو دیکھ کر فرمایا تھا کہ یہ لڑکا جیدعالم اور عارف کامل ہوگا اور گنّا بہت کھائے گا، چنانچہ ان کا قول سچ ثابت ہوا،اور اپنے والد ماجد قطب الاولیاء شیخ جمال الحق مصطفیٰ عثمانی قدس سرہٗ کی طرح ولایت وقطبیت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہوئے۔
تعلیم وتربیت:
آپ نے کلام مجید اور فارسی وعربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد اور حضرت مولانا شمس نور برونوی وغیرہ سے پڑھیں۔ اس کے بعد باقاعدہ درسیات کی تحصیل وتکمیل اپنے ماموں حضرت مولانا شمس الدین اور حضرت شیخ محمد افضل جونپوری سے کی۔ اس کے بعد حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کے بڑے فرزند حضرت شیخ نورالحق محدث دہلوی سے علم حدیث حاصل کیا اورپھر سند واجازت پائی۔
ازدواجی زندگی:
آپ کا عقد مسنون ۳۲؍سال کی عمر میں حضرت حاجی ارزانی قدس سرہٗ کی دختر نیک سے ہوا ،جن سے چار صاحبزادے ہوئے:
شیخ محمد حمید ، شیخ محمد ارشد، شیخ غلام معین الدین اورشیخ غلام قطب الدین۔
چاروں صاحبزادگان گرامی علوم ظاہری اور باطنی سے مالا مال تھے اور عادات وخصائل اور اخلاق وکردار میں اپنے والد مکرم کے عکس و پرتو تھے۔
اخلاق وکردار:
آپ جید عالم وعارف اور زاہد وصوفی ہونے کے ساتھ بلند اخلاق وکردارکے مالک تھے، اساتذہ ومشائخ اور فقرا کے محبوب ومنظور نظر تھے اور ان کا بہت زیادہ احترام واکرام فرماتے تھے۔جب حضرت شیخ محمدافضل جونپوری قدس سرہٗ کی بارگاہ میں پڑھنے کے لیے حاضر ہوتے تو سب سے پہلے چوکھٹ کو بوسہ دیتے، استاذ کے قدموں کو چومتے، پھر اس کے بعد ادب سے بیٹھتے ۔ مالداروں سے آپ ہمیشہ دور رہتے اور اُن سے حد درجہ بے نیازی کا اظہار کرتے تھے۔ یاد الٰہی، صبر وقناعت اور توکل کی دولت سے آراستہ تھے، خدمت خلق اور حاجت روائی ان کا ممتاز وصف تھا۔
حاصل یہ ہے کہ آپ جس طرح علم وعمل اور روحانیت کے تاجدار اور یکتا ئے روزگار تھے،اسی طرح اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کاعمدہ نمونہ اور قابل تقلیدشخصیت کے مالک تھے اور ’’وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلْقِِ عَظِیْم ‘‘کے مظہر تھے۔
بیعت وخلافت:
آپ نے سلوک ومعرفت کی تعلیم وتربیت سب سے پہلے اپنے والد محترم حضرت شیخ جمال الحق مصطفیٰ عثمانی جونپوری ثم پورنوی قدس سرہٗ سے حاصل فرمائی جو اپنے عہد کے عظیم بزرگ تھے۔ والد مکرم کے انتقال کے بعد قطب بنارس مخدوم شاہ طیب بنارسی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے اور ان سے اکتساب فیض کیا ،انھیںکی خدمت میں رہ کر حقیقت ومعرفت کی منزلیں بھی طے کیں۔ پھر شیخ کامل سے اجازت اورخلافت حاصل کی اورعام مخلوق کی تعلیم وتربیت اور تزکیہ وتصفیہ کے لیے جونپور روانہ ہوئے جہاں آپ کے ذریعے مخلوق کی ایک بڑی تعداد نے فیض اٹھایا۔
ان کے علاوہ بھی آپ نے متعدد مشائخ وبزرگان دین سے بھی استفادہ کیا اور اُن سے اجازت وخلافت کی نعمتوں سے سرفراز ہوئے۔
درس وتدریس:
ظاہری علوم وفنون کی تحصیل سے فارغ ہوئے تو مسند درس وتدریس پربیٹھے اور بڑے اخلاص ودیانت داری کے ساتھ تعلیم وتربیت کا فریضہ انجام دیااور اپنے شیخ حضرت شاہ طیب بنارسی قدس سرہٗ کی اس نصیحت کو سچ کردکھایا جنھوں نے یہ ہدایت اور تاکید کی تھی کہ وظیفۂ صبح کے بدلے روزانہ طلبہ کو درس دیا کرو کہ یہ بھی عبادت ہے۔چنانچہ تا حیات آپ اپنے شیخ کی اس مبارک نصیحت پر سختی سے کار بند رہے۔ طلبہ سے لگاؤ اورغایت شفقت وعنایت کااندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ بوقت وصال آپ نے ایک تاریخی وصیت کی تھی کہ جس پتھر پر طلبہ کی جوتیاں اُترتی ہیں اسے میری قبر میں تختہ کے طور پردیا جائے۔
خانقاہ رشیدیہ کا قیام:
پھرجب علوم ظاہری کے ساتھ علوم باطنی کے حسین سنگم ہوگئے اور مختلف شخصیات کی روحانی نعمتوں اوربرکتوں سے مشرف ہوگئے تو تقریباً اپنی عمر کے ۴۰ ویں سال یعنی ۱۰۴۰ھ میں حضرت راجی احمد مجتبیٰ مانکپوری قدس سرہٗ کے حکم وارشاد سے ایک خانقاہ کی بنیادڈالی جو آج ’’خانقاہ رشیدیہ‘‘ کے نام سے مشہور ومتعارف ہے اور اپنی امتیازی روحانی خصوصیات وروایات کے اعتبار سے ایک تاریخی اور مثالی خانقاہ ہے نیز تقریباً چار سوسال کا ایک لمبا عرصہ گذرجانے کے باوجود آج بھی یہ اپنی روحانی اقدار ومعمولات کا امین ہے۔
تصانیف:
درس وتدریس، طریقت وروحانیت ، خدمت خلق وغیرہ جیسی ہمہ جہات مصروفیات کے باوجود آپ نے تقریباً ایک درجن علمی وتحقیقی اور روحانی وعرفانی تصانیف بھی یادگار چھوڑے ہیں۔ان میں مناظرۂ رشیدیہ، زادالسالکین، مقصود الطالبین اور دیوان شمسی وغیرہ قابل ذکرہیں۔ان میں ’’مناظرۂ رشیدیہ‘‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے اور آج تقریباً ہندوستان کی تمام درسگاہوں میں شامل نصاب ہے ۔
شعر وشاعری:
آپ طبعاً صوفی مزاج تھے لیکن فکر انتہائی پختہ اور بلند تھی ،جس نے آپ کو شعرگوئی کی جانب مائل کیا،آپ کے اشعار تصوف وسلوک کے رموز واسرار سے معمور ہیں اور ان میں علوم ومعارف کاایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ زبان وبیان کی سلاست اورفصاحت کے اعتبار سے دیکھا جائے توآپ کی شاعری اعلیٰ معیار پرپوری اترتی ہے ۔ ’’دیوان شمسی‘‘ کے نام سے ایک مجموعہ بھی ہے جو فارسی اور ہندی دونوں زبانوں پر مشتمل ہے مگرافسوس کہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔
وصال مبارک:
آپ کا وصال پرملال ماہ رمضان کی نویں تاریخ ۱۰۸۳ھ بروز جمعہ مبارکہ صبح کی نماز کے وقت ہوا۔ حضرت شیخ محمد ماہ دیوگامی قدس سرہٗ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مزار مبارک ضلع جونپور یوپی کے رشید آباد شریف میں مرجع خلائق اور امیدگاہ انام ہے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں