سلطان العلماء عزالد ین بن عبدالسلام
حسن سعیدصفوی
تاریخ اسلام کے ہر دور میں ایسی انگنت شخصیات پیدا ہوئیںجو مختلف علوم ومعارف پر عبور رکھتے ہوئے وہ عظیم کارنامے انجام دے گئیں جن سے دنیائے انسانیت نے بہت فائدہ اٹھایا اور رہتی دنیا تک انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
انھیں عظیم اورعبقری شخصیات میں ساتویں صدی ہجری کے مفکر، عالم و زاھدسلطان العلماء شیخ الاسلام علامہ عزالدین بن عبد السلام شافعی (۵۷۷ھ/۶۶۰ھ)کا بھی شمار ہوتا ہے۔
ولادت باسعادت
آپ کا اسم گرامی عبد العزیز بن عبد السلام ، کنیت ابو محمد اور لقب سلطان العلماء، شیخ الاسلام اور عز الدین ہے،ان میں’’عزالدین‘‘سے آپ زیادہ مشہور ہیں۔ آپ کی ولادت ۵۷۷ہجری یا ۵۷۸ہجری میں دمشق میں ہوئی ۔
حصول تعلیم
پہلے آپ نے اپنے وطن کے جلیل القدر علماء سے علمی استفادہ کیا ، علامہ فخر بن عساکر سے فقہ کی تعلیم حاصل کی ، امام سیف الدین آمدی سے اصول فقہ کادرس لیا اور امام عمر بن طبرزد وغیرہ سے حدیث کی سماعت کی اور فقہ و اصول فقہ اور عربی علوم میں مہارت حاصل کی۔
علمی شان
امام ذہبی ’’ سیراعلام النبلاء‘‘ میں فرماتے ہیں: فقہ ومذہب کی معلومات میں آپ مرجع خلائق تھے اورمجتہد انہ شان رکھتے تھے۔
مصر تشریف لے گئے اوروہاں بیس سال سے زیادہ عرصے تک رہے۔بڑی بے باکی،بے خوفی اور کمال جرأت مندی سے ’’ امر بالمعروف‘‘ اور’’ نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ انجام دیتے رہے،یہاں تک کہ بادشاہوں سے بھی ناراض ہوجاتے اور ان کے ساتھ بھی دینی امور میں سختی کے ساتھ پیش آتے۔
(حسن المحاضرۃ للسیوطی:۱/۲۹۱)
آپ جب مصر تشریف لائے تو امام ذکی الدین منذری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ساتھ بہت ادب سے پیش آئے اور آپ کی آمد کے بعد فتوی دینا چھوڑ دیااور فرمایا کہ ان کی تشریف آوری سے پہلے ہم فتوی دیا کرتے تھے لیکن اب ان کی موجودگی میں یہ منصب انھیں کے لیے خاص ہوگیا ہے۔ مصر میں آپ نے قرآن مجید کی تفسیر کا درس بھی شروع کیا۔(مرجع سابق)
امام ابو الحسن شاذلی قدس سرہ فرماتے ہیں: مجھ سے کہا گیا کہ روئے زمین پر شیخ عزالدین بن عبد السلام کی مجلس فقہ سے بہتر کسی کی مجلس فقہ نہیں ہے اور روئے زمین پر شیخ زکی الدین عبد العظیم منذری کی مجلس حدیث سے بڑھ کر کسی کی مجلس حدیث نہیں ہے اور اس روئے زمین پرآپ کی مجلس حقائق ومعارف سے بڑھ کر کسی کی مجلس نہیں ہے۔شیخ جمال الدین ابن الحاجب فرماتے ہیں : ابن عبد السلام امام غزالی سے زیادہ فقیہ ہیں۔(طبقات الشافعیہ للسبکی : ۸/۲۱۴)
درس وتدریس
درس وتدریس میں آپ کی نظیر نہ تھی ، آپ نے عظیم اور بے نظیر تلامذہ کی ایک بڑی جماعت چھوڑی ، مشہور تلامذہ میں شیخ الاسلام ابن دقیق العید (م:۷۰۲ھ) جنھوں نے آپ کو ’’ سلطان العلماء‘‘ کا لقب دیا ۔ امام علاء الدین باجی (م:۷۱۴)اور حافظ ابو محمد دمیاطی (م:۷۰۵) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
(طبقات: ۸/۲۰۹)
تصانیف
آپ نے بیش بہا تصانیف بھی یاد گار چھوڑی ہیں،جن میں چند یہ ہیں:
۱۔ تفسیر القرآن
۲۔ مجاز القرآن
۳۔ الفتاوی الموصلیۃ
۴۔ مختصر النہایۃ
۵۔ شجرۃالمعارف
۶۔ القواعد الصغری
۷۔ شرح الاسماء الحسنی
۸۔ بدایۃ السول فی تفضیل الرسول
۹۔قواعد الاحکام فی مصالح الانام
(القواعد الکبری)
وغیرہ مشہور ومعروف تصانیف ہیں۔
(حسن المحاضرہ للسیوطی:۱/۲۹۲)
خلافت
آپ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی قدس سرہ (م: ۶۳۲ھ) کے خلیفہ ہیں اور آپ کی خدمت میں رہ کر رسالہ قشیریہ پڑھا۔(طبقات الشافعیہ للسبکی : ۸/۲۱۴)
بزرگوں کی تعظیم
امام ابوالحسن شاذلی قدس سرہ (م:۶۵۶ھ) کی خدمت میں حاضر ہوتے ،اُن کی باتیں سنتے اوراُن کی حد درجہ تعظیم وتوقیر کرتے۔
علمی دیانت
آپ کی جرأت ایمانی اور حق گوئی کا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ آپ نے کوئی فتوی دیا ، بعد میں آپ پر یہ منکشف ہوا کہ جواب غلط تھا تو آپ نے مصر وقاہرہ میں یہ اعلان کرادیا کہ ابن عبد السلام نے جو فتوی دیا ہے اس پر عمل نہ کیا جائے وہ غلط تھا۔
(حسن المحاضرۃ : ۱/۲۹۲)
آپ نے فرمایا :
إِنَّ الْمُصَافَحَۃَ بَعْدَ الصُّبْحِِ وَ الْعَصْرِ بِدْعَۃٌ مُبَاحَۃٌ۔
یعنی فجر وعصرکی نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعت مباحہ ہے ۔
( طبقات لابن قاضی شہبہ: ۲/۱۴۰)
سماع
شدت وصلابت اورزہدوتقوی کے باجودآپ کوبہت سارے اشعار ونوادر یاد تھے، نیز آپ محفل سماع میں تشریف لے جاتے اور وجد ورقص فرماتے تھے۔
(الکواب الدریۃ للمناوی : ۲/۱۱۱)
وصال
۱۰؍ جمادی الاولیٰ ۶۶۰ہجری مطابق ۱۲۶۲ عیسوی میں ۸۳؍ سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے اور قُرافہ (قاہرہ کا مشہور قبرستان ) میں مدفون ہوئے ۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں