حیات طیبہ
جہاں گیرحسن مصباحی
حضرت عبدالمطلب خاندان بنوہاشم سے تھے اور قریش کے معززسرداروںمیں ممتازمقام رکھتے تھے۔ان کی دس اولادیں ہوئیں جن میں حضرت عبداللہ سب سے زیادہ شریف اور حیا دار تھے ۔ اُن کا نکاح آمنہ بنت وہب بن عبدمناف سے کیاجو قریش قبیلہ کی تمام عورتوںمیں سب سے برتراور افضل تھیں۔
جس سال سرورکائنات شکم مادر میں آئے، قریش میں سخت قحط سالی تھی،لیکن وہ قحط سالی فراخ سالی میں تبدیل ہوگئی۔وحشی چوپائے اور چرندوپرندسردارانبیا کے وجودکی گواہی دینے لگے۔حضرت آمنہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں :
میں نے خواب میں سناکہ کوئی کہہ رہا ہے تیرے شکم میں جہان کا سردارہے۔جب وہ پیدا ہوں تو اُن کا نام محمدرکھنا۔
شکم مادرمیں منتقل ہوئے ابھی دوماہ ہوئے تھے کہ حضرت عبداللہ بیمارہوئے اور اسی بیماری کے سبب اُن کا انتقال ہوگیا۔ولادت سے ۵۵ ؍دنوں پہلے ’’اصحاب فیل ‘‘کا واقعہ پیش آیا،جب یمنی بادشاہ ابرہہ اپنے لشکریوں کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کرنے کے لیے آیا تو اللہ تعالیٰ نے ابابیلوں کے ذریعے اُنھیں شکست دی اور یہ ہزیمت ابرہہ اوراس کے لشکریوںکو اس لیے ملی کہ سرداردوجہاں پیداہونے والے تھے اوراللہ تعالیٰ کو یہ کب پسندہوتا کہ جو تمام مخلوقات کا سردارہے وہ غلام اور مفتو ح قوم میں پیدا ہو۔
ولاد ت باسعاد ت:حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب شکم مادرمیں پورے نو مہینے کے ہوگئے تو ۱۲؍ربیع الاوّل مطابق ۲۰؍اپریل ۵۷۰عیسوی پیرکے دن فجرکے وقت پیدا ہوئے،گویا نبی کریم کی پیدائش ہوئی تو اندھیرابھاگ رہا تھا اوراُجالااپنی روشنی بکھیررہاتھا۔پیدائش کے وقت آپ اس حال میں تھے کہ دونوںہاتھ زمین پر رکھے اورسرآسمان کی طرف اُٹھائے ہوئے تھے۔ بدن پاکیزہ، خوشبوداراور ختنہ کیے ہوئے۔ناف بریدہ،چہرہ چودھویں چاند کی طرح روشن، آنکھیں قدرت الٰہی سے سرمئی اوردونوں شانوں کے درمیان مہرنبوت کا نشان صاف چمک رہا تھا۔عبدالمطلب جوکعبہ میں تھے ،آئے،آپ کو گودمیں لیا اور بیت اللہ شریف میں لے گئے، وہاں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں صدق دل سے دعاکی اور پوتے کی شکل میں ملی ’’نعمت عظمیٰ‘‘پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکیا۔ ابولہب کی باندی ثوبیہ نے جب ولادت نبوی کی خبر دی تواُس نے خوش ہوکر ثوبیہ کو آزادکردیا جس کا بدلہ وہ اپنی موت کے بعد بھی پاتارہاکہ جس انگلی کے اشارے سے ثوبیہ کو آزادکیا تھا اُس کے چوسنے سے عذاب میں تخفیف ہوجاتی اور کچھ دیر کے لیے تسکین حاصل ہوتی تھی۔
پیدا ئش کے وقت کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو اُس سے پہلے کبھی وجودمیں نہیں آئے تھے،جیسے:ستارے تعظیم کے لیے جھک گئے۔ایک ایسا نورچمکاکہ اس کی روشنی میں مکہ والوں نے قیصرکے محلات دیکھ لیے ۔مدائن شہرمیں کسریٰ کے محلات میں شگاف پڑگیا اور اس کے چودہ کنگرے گرپڑے۔ اس کا نتیجہ اس وقت سامنے آیا جب مدائن کے چودہ باشاہوں کے بعد وہاں اسلام کا بول بالا ہوا۔ فارس کے آتش کدے سردپڑگئے اورکوفہ اور شام کے درمیان ایک ندی جو بالکل خشک ہوگئی تھی بہنے لگی۔
ابتدائی زند گی:کچھ دنوں تک خودوالدہ ماجدہ نے دودھ پلایااورپھر کچھ دنوں تک ابولہب کی باندی ثوبیہ نے۔ اس کے بعد یہ خدمت حلیمہ سعدیہ کے سپردہوئی جو غریب سہی لیکن حسب ونسب اور اپنی طبیعت کے اعتبارسے پاکبازا ورحیادارتھیں۔ حلیمہ سعدیہ کی اونٹنی جو بھوک کے مارے ایک قطرہ بھی دودھ نہ دیتی تھی اور نہ ہی وہ خود اپنے بچوں کو پیٹ بھر دودھ پلاپاتی تھیں ،محسن انسانیت کے آتے ہی ان کی درازگوش اونٹنی بھی دودھ دینے لگی ،گھر میں ہر طرف خوش حالی آگئی اور حلیمہ سعدیہ کی تمام تنگ دستی بھی دورہوگئی۔
شق صدر:جب دو سال کچھ ماہ کے ہوئے تو پہلی بار ’’شق صدر‘‘کا واقعہ پیش آیاکہ دوفرشتے آئے اور سینہ مبارک چاک کیا اوریہ کہتے ہوئے گوشت کاایک ٹکڑابدن سے نکال کر باہرکردیا کہ :یہ شیطان کا حصہ ہے، تاکہ آپ بچپن کی آلائشوں سے محفوظ رہیں اور اخلاق حسنہ کے سائے میں پرورش پائیں،دوسری بار دس سال کی عمرمیں تاکہ آپ بہترین اوصاف کے ساتھ جوان ہوں ،تیسری بار’’ غار حرا‘‘میں تاکہ وحی الٰہی کی سختی برداشت کرسکیں اورچوتھی بار’’شب معراج‘‘ تاکہ تجلیات الٰہی کے لیے تیارہوجائیں۔
ابوطالب کی کفالت :جب آپ کی عمر چھ سال کی ہوئی تو والدہ محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہوگیا اور دادا عبدالمطلب کی کفالت میں آگئے لیکن ابھی آٹھ ماہ کچھ دن کے ہوئے تھے کہ شفیق ومہربان دادا کا بھی انتقال ہوگیا اور اپنے چچاابوطالب کی سرپرستی میں آگئے۔ انھوں نے بڑے اچھے طور پر آپ کی پرورش کی ،یہاں تک کہ اپنی ذات اور اپنے بیٹوں پر بھی آپ کو فوقیت دیتے رہے۔
نبو ت کی پیشن گوئی:بارہ سال کی عمرہوئی تو اپنے چچاابوطالب کے ساتھ ملک شام کا پہلا سفرکیا، اسی سفر میں بحیرۂ راہب نے آپ کا ہاتھ پکڑلیا اور کہا کہ یہ سارے جہانوں کے سردار اور اللہ کے رسول ہیں۔پچیس سال کی عمرتک پہنچتے پہنچتے محسن انسانیت کے صادق وامین ہونے کا شہرہ دوردورتک پہنچ چکا تھا۔یہ دیکھ کر حضرت خدیجہ جو مکہ کی معززخاتون اور مشہورتاجرہ تھیں، آپ کے پاس پیغام بھیجاکہ میرا مال تجارت لے کرملک شام جائیں۔اس طرح دوسری بارتجارت کی غرض سے حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ کے ساتھ شام روانہ ہوئے ،جب بصرہ کے بازارمیں آپ خریدو فروخت کررہے تھے کہ نسطورا راہب نے آپ کو دیکھااور میسرہ سے کہا کہ یہ آخری نبی ہیں ،ان سے کبھی جدا نہ ہونا اور ان کے ساتھ ہمیشہ نیک نیتی سے پیش آنا ۔
ازدواجی زندگی: حضرت خدیجہ آپ کے اخلاق سے بہت متأثرتھیں،پھرجب غلام میسرہ کی زبانی سفر تجارت کا سارا ماجرا سنا توان کایہ یقین اور بھی پختہ ہوگیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہیں۔ چنانچہ اس سفرکے تین مہینے بعد اپنی سہیلی نفیسہ بن منیہ کے ذریعے شادی کا پیغام بھیجا جسے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاکے مشورے سے قبول فرمالیااور وقت مقررہ پر ابوطالب نے پانچ سو درہم مہرکے عوض حضرت خدیجہ سے آپ کا نکاح پڑھادیا۔ یہ آپ کی پہلی شادی تھی اوراس وقت آپ پچیس سال کے تھے جبکہ حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال اور وہ بھی دوباربیوہ ہوچکی تھیں۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے چند اور شادیاں کیں اور سب کا مہر پانچ سو درہم ہی قرارپایا۔ان میں حضرت عائشہ کے سوا ، باقی سب بیوہ تھیں۔آپ کی تمام اولادیں چھ ہوئیں،جن میں پانچ اولادیں حضرت خدیجہ کے بطن سے اور ایک لڑکا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہیں،مثلاََ:
۱۔ حضرت زینب
۲۔ حضرت ام کلثوم
۳۔ حضرت رقیہ
۴۔حضرت فاطمہ
۵۔ حضرت قاسم
۶۔ حضرت ابراہیم۔رضی اللّٰہ عنھم و عنھن
ایک بہترین شوہر میں جتنی خوبیاں ہوتی ہیں وہ تمام تر حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں موجودتھیں۔آپ نے کبھی کسی اہلیہ کوشکایت کاکوئی موقع نہیںدیا اور نہ ہی کسی کی کبھی کوئی حق تلفی فرمائی ۔
معمولات زندگی:محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر سطح پر مکمل واکمل نظرآتی ہے ،خواہ عائلی ہو،معاشرتی ہو،تبلیغی ہویا پھرتقوی۔آپ گھرکے کام کاج بھی بڑی خندہ پیشانی سے کیا کرتے،جیسے:سبزیاں کاٹنا،کپڑے سینااورخرید وفروخت کرنا۔ مسجد نبوی اور خندق کھودنے کے موقعے پر جس عمل کا مظاہرہ کیا وہ ہر اس امیروحاکم کے لیے مشعل راہ ہے جو اِس منصب کو محض حکمرانی اور عیش وعشرت کا سامان سمجھتے ہیں۔ تکالیف پہ تکالیف سہتے رہے،گالیاں سنتے رہے اور اپنے بیگانوں نے مذاق بھی اڑایا مگرتبلیغی ذمے داری سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے اور ہر قیمت پر پیغام الٰہی پہنچانے کا عمل جاری رکھا۔سردار انبیاتھے،دونوں جہان کی حکومت حاصل تھی ،خدا کے بعد سب سے عظیم ترین شخصیت کے مالک رہے ، لیکن ہمیشہ بارگاہ الٰہی میں استغفاراور عبادت الٰہی میں مشغول رہتے،جس پر خدا کو بھی نازہوتا، جب کہا جاتاکہ اتنی عبادت کیوں؟تو فرماتے کیا میں اپنے رب کا شکرگذاربندہ نہ بنوں؟
اعلان نبوت:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر غوروفکر اور ذکرالٰہی میں مصروف رہتے۔اس کے لیے دوخاص جگہوں پربرابر جایاکرتے تھے، ایک ’’کعبہ شریف‘‘ اور دوسری ’’غارحرا‘‘۔بارہا ایسا ہوتا تھاکہ’’ غارحرا‘‘ چلے جاتے اور گھنٹوں عبادت الٰہی میں منہمک رہتے ،یہاں تک کہ جب آپ کی عمرمکمل چالیس سال کی ہوگئی تواسی غارحرامیں ’’وحی ‘‘کا نزول ہوا،حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا پیغام لے کر تشریف لائے اور حکم الٰہی سنایاکہ اب آپ اپنی نبوت کا اعلان کیجئے اور لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کی طرف بلائیے ۔
واپس گھر تشریف لائے اور ساری کیفیت اپنی ہمدرد شریک حیات حضرت خدیجہ سے بیان کیا وہ اپنے چچاورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جہاں انھوں نے آپ کے نبی ہونے کی گواہی دی اور مستقبل میں ان کے ساتھ پیش آنے والے مشکلات کا ذکرکیا۔آپ نے پہلے فرداََفرداََدعوت دیناشروع کیا اور سب سے پہلے حضرت خدیجہ ،حضرت ابوبکر،حضرت علی اور زیدبن حارثہ ایمان لائے ۔پھر ایک دن وہ بھی آیاکہ ’’فاران‘‘کی چوٹی پر چڑھ کرعلی الاعلان ’’توحید‘‘کی دعوت دی اورکہا:اے لوگو! ایک اللہ اور رسول پر ایمان لاؤ،یہ بت جنھیں تم پوجتے ہو ہرگز عبادت کے لائق نہیں۔
دعوت کاردّعمل اور اثر:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے ہی ایک اللہ اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی توعربوںمیں کہرام مچ گیا،کل تک جو لوگ آپ پر اپنی جان و مال نچھاورکیا کرتے تھے،اب وہی لوگ آپ کی جان کے دشمن ہوگئے،جنھوں نے آپ کی صداقت اورامانت داری کے گن گائے تھے، وہی آپ کو مجنوںاورجادوگر کہنے لگے مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے عزم واستقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا،بلکہ بڑی شجاعت وبے باکی سے اپنے فرائض کوبخوبی انجام دیتے رہیں ۔جس کا بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف کفارومشرکین پسپائی پر مجبورہوئے تو دوسری طرف ان لوگوں کو دین میں داخل ہونے کا موقعہ ملا جو لوگ کسی خوف کے سبب ایمان نہیں لاپارہے تھے یا پھر جو غلام کی حیثیت سے کسی نہ کسی کفارومشرکین کے تابع تھے۔
حسن اخلاق کا نمونہ : آپ حسن اخلاق کے پیکر تھے، ہر کسی سے رحمت و محبت کا اظہارفرماتے،خواہ اپنے ہوں یا بیگانے، یہاں تک کہ ایک بوڑھیاجو روزانہ آپ کے راستے میںکوڑاکرکٹ ڈال دیا کرتی تھی ،بیمار پڑنے پر اس کی مزاج پرسی کرکے ، ایک ایسا انمول سبق دیا جس کی مثال پیش کرنے سے دنیاآج بھی قاصرہے۔
طائف میںپتھرمارے جا رہے تھے اور قدم مبارک لہولہان ہورہاتھا ایسے عالم میں بھی جب جبرئیل آئے اور کہا کہ حکم ہوتو انھیں دوپہاڑوںکے بیچ پیس کررکھ دوںتو رحمۃ للعالمین نے منع فرمادیا اور کہا کہ یہ نہ سہی لیکن ان کی اولادیں تو ایمان لائیںگی ۔ صحابہ بھی آپ پرٹوٹتے مظالم کو دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور کہتے کہ یارسول اللہ!ان کے لیے ہلاکت کی دعا کیوںنہیں فرمادیتے ، رحمۃ للعالمین برجستہ لب کشا ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعافرماتے :اللھم اھدیھم۔
یعنی اے اللہ!انھیں ہدایت نصیب فرما۔
ہجرت اور اس کااثر :یہ آپ کی دعااورصبرآزما عمل کا پھل تھا کہ حضرت عمرجیسے سخت طبیعت کے مالک ایمان لائے اور اُن سے اسلام کا وہ کام ہوا جو پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔پھر جب کفارومشرکین کے مظالم حدسے بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ’’ہجرت ‘‘کا حکم فرمایا اور اس طرح اپنی زندگی کا بیشترحصہ یعنی۵۳ ؍سال مکہ مکرمہ میں بسرکرنے کے بعد ’’مدینہ منورہ ‘‘ تشریف لے گئے جہاں سے اسلام نے دنیاکے اکثرحصوں پر اپنی فتح کا جھنڈا لہرایااور دنیا کے سامنے انسانیت کی مکمل شبیہ پیش کی۔
مدینہ منورہ آنے کے بعد جب حالات ناگزیرہوگئے توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاعی غزوات کی راہ اپنائی،جس میں بدر،احد، خندق،حنین وغیرہ غزوات رونما ہوئے۔ اُن میں قیدیوں اورمفتوح قوم کے ساتھ جو حسن سلوک کا مظاہرہ کیا گیا، انسانیت آج بھی اس کی مرہون منت ہے۔پھر صلح حدیبیہ کے ذریعے آپ نے جوفتح عظیم حاصل کیا اس نے کفارومشرکین کی بنیاد ہی کو مسمارکرکے رکھ دیااورپھراس کے بعداسلام کی روشنی پھیلی تونہ کوئی گورارہا نہ کوئی کالا۔نہ کوئی عربی رہا نہ کوئی عجمی، بلکہ سب آدم کی اولاد ہونے کے ناطے بھائی بھائی ہوگئے،کسی کواس کی مثال چاہیے تو مدنی انصاریوں کا عمل اخوت دیکھ لے جنھوں نے اپنی جائیدادکے دوحصے کیے ایک اپنے پاس رکھا اور دوسرا حصہ اپنے مہاجر بھائیوں کو دے دیا،یہاںتک کہ اگرکسی کے پاس دوبیویاں تھیں تو ایک کو طلاق دیکراپنے مہاجربھائیوں کے نکاح میں دے دیا۔
حیات طیبہ میں جتنی بھی غزوات ہوئیں سب میں حضوربنفس نفیس شریک ہوئے اورنہ صرف امت مسلمہ کی مثالی قیادت فرمائی،بلکہ ایک مجاہد کی طرح موقع بہ موقع صف آرا بھی رہے۔
وصال پرملال:ہجرت کے دسویں سال صحابہ کرام کے ساتھ حج کا ارادہ فرمایاجسے ’’حجۃ الوداع‘‘کہاجاتا،اسی سال عرفہ میں یہ آیت اتری:الیوم اکملت لکم دینکم۔ یعنی میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ اب وقت قریب ہے ، چنانچہ اس موقع سے عرفات کے میدان ایک تاریخی خطبہ دیاجونہ صرف اسلامی قانون کا نچوڑہے بلکہ تاقیامت پوری انسانیت کے لیے ایک انمول خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حج سے واپسی کے دومہینے بعد ماہ صفر کے اخیرمیں آپ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور پھر وہ دن بھی آیاکہ جب نبی آخرالزماں۶۳؍ سال کی عمر پاک ۱۲؍ ربیع الاول بروزپیر۱۱ہجری مطابق ۶۳۲ عیسوی میں اس ظاہری دنیا سے پردہ فرماگئے اور اپنے رب حقیقی سے جاملے،وصال کے وقت وقت زبان مبارک پر یہ الفاظ تھے:اَللّٰھم فی الرفیق الاعلٰی۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں