Khwaja Qutbuddin Bakhtiyar Kaki

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

خواجہ قطب الد ین بختیارکاکی
ڈاکٹر جہاں گیرحسن مصباحی 

خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ چشتیہ کے عظیم روحانی بزرگ ہیں۔ اصل نام’’ بختیار‘‘ اور لقب  ’’قطب الدین‘‘ ہے۔آپ حسینی سادات ہیں۔ ابھی آپ شکم مادرہی میں تھے کہ آپ کی ولایت وبزرگی کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں:
 دوران حمل جب میں تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے اٹھتی تو میرے شکم کے اندر سے اللّٰہ اللّٰہ کی آواز آتی تھی ۔
ولادت باسعادت:آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کافی اختلاف پایاجاتاہے،لیکن اس پرتقریباََ سب کا اتفاق ہے کہ آپ۵۶۹ ہجری مطابق ۱۱۷۳ عیسوی کوآدھی رات کے وقت’ا وش‘میں پیدا ہوئے۔آپ کی پیدائش کے وقت ایک ایسانور نکلاجس نے تمام گھر کو روشن کردیا،جس سے والدہ ماجدہ کو یہ خیال گذرا کہ سورج نکل آیا ہے اوریہ دیکھ کر بھی وہ کافی حیران ہوئیں کہ آپ کا سر سجدے میں ہے اور زبان مبارک سے اللّٰہ اللّٰہکی آوازآرہی ہے۔
تعلیم وتربیت:آپ کے خاندان والے ولادت پربے حد نازاں تھے اورگھر کی تمام برکتیں آپ کے نام سے منسوب کرتے تھے،لیکن خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ابھی ڈیڑھ سال ہی کے تھے کہ شفیق والد کا سایہ آپ کے سر سے اٹھ گیااوران کی وفات کے بعد پرورش کی تمام تر ذمے داری آپ کی والدہ محترمہ پر آگئی جنھوں نے آپ کی تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔
خواجہ قطب الدین علیہ الرحمہ کی ابتدائی تربیت خوداُن کی والدہ ماجدہ نے کی اورآپ جب چار سال، چار ماہ اور چار دن کے ہوئے تووالدہ ماجدہ نے’’اوش‘‘میں خواجہ معین الدین چشتی کی موجودگی کوغنیمت جانااوریہ طے کیاکہ خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ جیسی بزرگ ہستی سے وہ اپنے لڑکے کی بسم اللہ خوانی کروائیں گی۔چنانچہ انھوں نے قطب الدین بختیارکاکی کو خواجہ غریب نواز کی خدمت میں بھیجا۔ خواجہ غریب نواز، خواجہ  قطب الدین کی تختی پرکچھ لکھنا ہی چاہ رہے تھے کہ ایک غیبی آواز اآئی : اے معین الدین! ابھی لکھنے میں توقف کرو،قاضی حمیدالدین ناگوری آر ہاہے، وہی ہمارے قطب الدین کی تختی لکھے گا ۔
 خواجہ غریب نواز رک گئے، اتنے میں وہ تشریف لائے اورخواجہ غریب نواز نے تختی ان کو دے دی۔ قاضی صاحب نے دریافت کیا کہ تختی پر کیا لکھیں؟ انھوں نے جواب دیا:
 سبحان الذی اسریٰ بعبدہ... ۔
 قاضی صاحب یہ سن کر حیران رہ گئے اور پوچھا!یہ تو پندرہویں پارے میں ہے، تم نے کس سے پڑھا؟ خواجہ بختیار نے جواب دیا: میری والدہ ماجدہ کو پندرہ پارے یاد ہیں،وہ میں نے شکم مادر ہی میں حق تعالیٰ کی تعلیم سے یاد کرلیاہے۔
 جب پانچ سال کے ہوئے تووالدہ ماجدہ نے ایک خادم کے ہمراہ آپ کومکتب بھیجا۔ مکتب جارہے تھے کہ راستے میں  ایک بزرگ ملے، اُس بزرگ نے خادم سے دریافت کیا: ’’ سعید ازلی‘‘ کو کہاں لے جارہے ہو؟ خادم نے جواب دیاکہ تعلیم کے لیے مکتب لے جارہا ہوں۔ یہ سن کر اُس بزرگ نے کہا : اس کو مولانا ابو حفص کے پاس لے جاؤ۔چنانچہ خواجہ قطب الدین کو ابو حفص کے پاس لے جایا گیا،جن سے خواجہ بختیارنے تعلیم حاصل کی۔
شرف بیعت :خواجہ بختیارکاکی بچپن ہی سے ذکرحق کے جذبے سے مغلوب تھے، جب بڑے ہوئے تو آپ کو ایک ایسے مردحق آگاہ کی تلاش ہوئی جن سے وہ روحانی تسکین حاصل کرسکیں،اسی درمیان خواجہ غریب نواز مختلف ممالک کی سیاحت کرتے ہوئے شہر’’ا وش‘‘پہنچے تھے۔خواجہ بختیارنے ان کی خدمت اور صحبت کو اپنے لیے باعث برکت سمجھااوران کے دست حق پرست پر بیعت کرلی، خرقہ ا ورخلافت سے نوازے گئے اوراس طرح انھوںنے غریب نواز کے پہلے خلیفہ ہونے کا شرف حاصل کیا ۔
دہلی آمد:۵۸۳ ہجری میں قطب الدین رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشد خواجہ غریب نواز کے ساتھ مکہ معظمہ پہنچے اور کعبہ شریف کی زیارت سے مشرف ہوئے اور۵۸۵ہجری میں مدینہ منورہ سے بغدادہوتے ہوئے ۵۸۶ ہجری میں ہرات پہنچے اوروہاں سے لاہور ہوتے ہوئے دہلی پہنچے اور یہاں سے اجمیر تشریف لے گئے۔کچھ دن اجمیرمعلی میں قیام کرنے کے بعد خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدین ومعتقدین کے ہمراہ غزنیں تشریف لے گئے۔ 
لیکن چونکہ خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی والدہ ماجدہ سے ملاقات کیے ہوئے کافی عرصہ گذرگیا تھا،اس لیے آپ اپنے وطن ’’ اوش‘‘ تشریف لے گئے اور جب خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ واپس اجمیر تشریف لے آئے تو خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہندوستان روانہ ہوئے اور ملتا ن میں قیام فرمایا،جہاں بابافریدالدین گنج شکر علیہ الرحمہ کو آپ نے شرف بیعت سے نوازا،اورپھراپنے مرشد کی رضا اور حکم سے دہلی کومستقل اپنا مسکن بنایا ۔
معمولات زندگی :خواجہ قطب الدین بختیارکاکی چونکہ حافظ قرآن تھے،اس لیے روزانہ ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔آپ کو عبادت میں بڑا لطف آتا تھا۔روزانہ ۹۵؍ رکعت نوافل پڑھتے تھے اورہرروزتین ہزارباردرودشریف کاو رد کیا کرتے تھے ۔آپ اکثرلوگوں سے چھپ چھپاکر عبادت کیا کرتے تھے،کیونکہ آپ کو گوشہ نشینی زیادہ پسندتھا۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا آپ کا شعار تھا۔اکثر وبیشترفاقہ کشی میں گذاراکرتے لیکن کسی پر یہ ظاہر نہ ہونے دیتے تھے کہ گھر میں فاقہ ہے نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتے اورنہ کبھی کوئی حرف شکایت ہی زبان پر لاتے،بلکہ خواجہ بختیارکاکی اپنے فقرو فاقہ پر فخر اورنازکیاکرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ آپ کے پاس اگر کہیں سے کوئی نذرانہ آتا تو اسے قبول نہیں فرماتے تھے۔ یہاںتک کہ ایک مرتبہ سلطان شمس الدین التمش نے کچھ روپے اور اشرفیاں آپ کی خدمت میں بطورنذربھیجیں تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔
سماع :خواجہ قطب الدین بختیارکاکی رحمۃ اللہ علیہ کوبھی اپنے مرشد خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح سماع کا بے حد شوق تھا، جب سماع میں عشق الٰہی سے لبریز اشعارسنتے تو آپ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی اور کئی کئی روز تک یونہی بے خود رہتے۔وہ فرماتے ہیں کہ اگر سماع نہ ہوتا تو نہ لقا ہوتا اور نہ ہی لقا کا لطف حاصل ہوتا۔ایک بارخواجہ قطب الدین بختیارکاکی شیخ علی سنجری کی خانقاہ میں تھے ،وہاں سماع ہورہا تھا جس میں قوال احمد جام کا یہ شعرپڑھ رہے تھے کہ :
کشت گانِ  خنجرتسلیم را        
ہرزماں ازغیب جان دیگر ست
یعنی خنجر تسلیم کے مقتولوںکوہر وقت غیب سے ایک اور ہی جان ملتی ہے۔یہ سنتے ہی آپ بے ہوش ہوگئے ،جس کا اثر سات دن اور سات راتوں تک رہا۔
وصال:بالآخرذکر الٰہی اورعام مخلوق کی اصلاح وتربیت کافریضہ انجام دیتے ہوئے ۱۴؍ربیع الاول ۶۳۳ ہجری مطابق۲۷؍نومبر ۱۲۳۵ عیسوی میں اپنے معبودحقیقی  سے جاملے اور دہلی مہرولی میں قطب مینار کے نزدیک مدفون ہوئے ، جہاں سے آج بھی امن وآشتی ،انسان دوستی اور محبت واخوت کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں