قطب عالم مخدوم شاہ میناقدس سرہٗ:شخصیت وسوانح
ولادت باسعادت:
آپ کا نام مبارک شیخ محمد ہے اور عرفی نام شاہ میناہے۔ آپ امیرالمومنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اولاد سےہیں۔ آپ کے والد بزرگوار شیخ قطب الدین، دہلی سے جون پور میں آئے اور وہاں سے دلمؤ میں آکرقیام فرمایا ۔دلمئوسے حضرت حاجی الحرمین شیخ قوام الدین لکھنؤی قدس اللہ سرہٗ (810ھ )کی خدمت میں پہنچے۔چند دنوں کے بعد شیخ قوام الدین نے حکم دیا کہ تم نکاح کر لو، تمہارے صلب سے ایک لڑکا پیدا ہو گا، اس سے ہمارا نام زندہ وجاویدرہے گا اور خانوادۂ چشتیہ کافروغ ہو گا۔ جب آپ پیداہوئے اور حضرت شیخ قوام الدین کو خبر پہنچی تو انھوں نےفرمایاکہ آؤمورا مینا! اس وجہ سے آپ شیخ مینا مشہور خلائق ہوے ۔
مشہور ہے کہ جب مخدوم شاہ میناقدس سرہٗ اپنی والدہ ماجدہ کے پیٹ میں تھے تو لوگ بارہا تلاوت اور ذکر کی آوازسنتے تھے اور حیران ہو تے تھے۔ آپ اپنے عہد رضا عت میں جب رمضان ہوتا تو دن کو دودھ نہ پیتے ۔ رات کو آپ کی والدہ ماجدہ گود میں لے کر سوتیں ،مگر جب جاگتیں تو آپ کو چارپائی کے نیچے سجدے میں پاتیں۔ آپ دو تین برس کے ہوئے تب اپنے والدبزرگوار سے کہتے کہ یہ چڑیا ں جواُڑتی ہیں مجھ کو دیں۔وہ چڑیوں سے کہتےکہ شیخ مینا تم کو بلاتاہے چڑیا فوراً اتر آتیں اور آپ کے سامنے بیٹھ رہتیں۔ جب آپ رخصت دیتے تب اڑتیں۔
تعلیم وتربیت:
جب مخدوم شاہ میناقدس سرہٗ پانچ برس کے ہوئے اور مکتب میں بھیجے گئےتو مولوی صاحب نے کہاکہ پڑھو، الف! فرمایاکہ الف۔استاذ نے کہاکہ پڑھو،با! فرمایا کہ دوسرا کہاں اور الف کے معنی اورحقائق ومعارف اِس قدربیان کیے کہ سب حیرت زدہ رہ گئے ۔ چوں کہ استاذنے جان لیاکہ یہ مادرزادولی ہیں۔آپ اکثرآنکھیں بند کیےرہتے،جب رخصت کا وقت آتا تو لڑکوں کے شور سے آنکھیں کھولتے اور استاذ کو سلام کر کے گھر واپس ہوتے۔
دس برس تک شیخ قوام الدین کی تربیت میں رہے۔ اُن کے بموجب وصیت قاضی فرید ون سے کافیہ تک تعلیم کے بعد شرح وقایہ کادرس مولانا شیخ اعظم سے لیا۔ودران تدریس اس قدر باریکیاں بیان فرماتے کہ مولانا اعظم باوجود متبحر ہونےکے ہر وقت آپ سےایک نیا نکتہ حاصل کرتے۔جب عبادات کی بحث ختم کر چکے توفرمایا کہ نکاح وغیرہ کے مسائل سے مجھ کو کچھ علاقہ نہیں ،مجھ کو دیگرمعاملات درپیش ہیں، اور عوارف المعارف شروع سے اخیر تک پڑھی۔ پھر لکھنو میں وارد سیدراجو قتال قدس سرہٗ کے ایک خادم سےکچھ ذکر و شغل حاصل کر کے مجاہدہ کرنے لگے، اور تھوڑے ہی دنوں میں اس قدر باصلاحیت ہوگئے کہ علوم عقلیہ ونقلیہ میںبڑے بڑے عالم وفاضل بھی آپ سے استفادہ کرتےاور معرفت کی باتیں پوچھتے۔
جب تقریباًبارہ/چودہ سال کے ہوئےتو حضرت بدیع الدین شاہ مدار قدس اللہ سرہ کے مریدقاضی شہاب الدین آتش پر کالہ آپ کی قطبیت کو ظاہر کیا ۔واقعہ یوں ہے کہ جب قاضی شہاب الدین لکھنؤ سے مکن پور جاتے تو سب آدمیوں کی حاجتیں لکھ کر حضرت شاہ مدار کے پاس لے جاتےاورحضرت شاہ مدار جو کچھ چاہتے حکم فرماتے۔ جب آپ مذکورہ عمرکو پہنچے اور قاضی شہاب الدین بدستور حضرت شاہ مدار کے پاس گئے، تب انھوں نےفرمایا کہ قطبیت حضرت شیخ مینا کےحوالہ ہوئی ،حاجتمندوں سے کہو کہ ُان سے رجوع کریں،پھر آپ کی شکل و صورت اور عمر بیان کی اور کہا کہ اُن کو اپناقطب ہونا معلوم ہے مگر لوگ نہیں جانتے۔اُن کو میری طرف سے سلام کہنا اور سفارش کرنا۔ ایک مصلیٰ بھی سپرد کیا کہ یہ میری طرف سے بطورہدیہ پہنچادی نا، وہ ہدیہ اب تک مخدوم الہدیہ کی اولاد میں موجود ہے۔چناں چہ قاضی شہاب الدین نے اپنے پیر کے حکم پر عمل کیا،اور آپ نے سب حاجتمندوں کو تعویذات عنایت کیے۔
شخصیت واخلاق:
حضرت مخدوم شیخ سعد لکھتے ہیں کہ آپ نہایت حلیم اوربردبارانسان تھے۔ایک بار ایک حجام نے شراب کی مستی میں آپ کو گالیاں دیں۔آپ نے اس کو کچھ نہ کہابلکہ آپ نے اس کو کچھ بخشش دے کر روانہ کیا، او رمعذرت بھی کیا۔
مزیدفرماتے ہیں کہ میں بیس برس حضرت قطب عالم کی خدمت میں رہا، مگرایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ پاؤں پھیلا کر یااُٹھا کر بیٹھے ہوں۔ ہمیشہ قبلہ رونماز میں بیٹھنے کی طرح بیٹھتے ۔ کفش مبارک ہمیشہ قبلہ روہو کر پہنتے اورقبلہ روہوکر ہی اتارتےبھی تھے۔ کبھی کچھ مانگ کر کے نہیں کھایا اور نہ اپنی خواہش سے کوئی کپڑا پہنا ۔
حضرت مخدوم شاہ میناقدس سرہٗ فرماتے تھے کہ جو صوفی خواہش نفس سے کچھ کھائے یا پہنے وہ دین مصطفی کا رہزن ہے۔یوں ہی کبھی بے وضو نہ رہتے، ہمیشہ تحیۃ الوضواداکرتے، اور جب وضو کرلیتےتو برتن میں دوسرے وضو کے لیے پانی سے بھر کررکھ دیتے۔ جب کھانا تناول فرماتے یا کھاچکے ہوتےتودونوںبار تازہ وضو کرتے، اوریہ فرماتےکہ جو کھانا با وضو کھایا جاتاہے،پیٹ میں پہنچ کر تسبیح کرتارہتاہے، گرانی کو دفع کرتا ہے اور نو ر پر نور زیادہ کرتاہے۔آپ کبھی بے وضو بات نہ کرتے،نہ ہی بے وضوسوتےاورجب جاگتےتو پہلے تیمم کرتے، پھروضو کر کے دوگانہ پڑھتے،اس کے بعد آرام فرماتے۔آپ کاارشاد ہے کہ آدمی کی اصل پانی اور مٹی سے ہے، ان دونوں سے طلب دنیا کی آگ سرد ہوتی ہے۔ امید ہے کہ دوزخ کی آگ بھی گل ہو۔
خدمت خلق اورایثار:
جس زمانے میں حضرت مخدوم قوام الدین رحمۃاللہ علیہ کے روضے پر مقیم تھا،آپ ظاہری اضطراب بہت زیادہ رہتے تھے،بعض اوقات ایسا ہوتا تھاکہ مسافرآجاتے، کھانا تھوڑاہوتا،آپ کھاناسامنےلےکر آتے،اورچراغ درست کرنےکے بہانےچراغ بجھادیاکرتے۔اندھیرے میں مسافر کھانے میں مشغول ہوتا،آپ بھی کھانے میں ہاتھ ڈالتے۔ البتہ! کھاتےنہیں تھے، تاکہ آنے والےمسافر سیرہوکر کھاسکیں۔آپ کے ساتھ ہاتھ لگا کر شریک رہنے میں مصلحت یہ ہوتی کہ وہ لوگ یہ سمجھیں کہ آپ بھی اُن کے ساتھ کھارہےہیں،جب کہ آپ ان کے ساتھ کھانانہیں کھاتے اوربھوکےہی رہتے تھے۔
حضرت مخدوم شاہ میناخود بیان کرتے ہیں کہ ایک بار خواجہ قوام الدین رحمۃاللہ علیہ کے روضے پرچند مہمان آگئے۔والدہ محترمہ اس وقت باحیات تھیں،میں نےجاکر عرض کیاکہ چندمہمان آگئے ہیں،ان کے لیے کچھ کھانا چاہیے۔ والدہ صاحبہ نے کہاکہ کھانامل جائے گا، تم جائو ، اپنے کام میں مشغول ہوجاؤ۔جب رات بہت زیادہ گزرگئی اورکچھ نہیں آیاتومیں کھانے کی تلاش میں نکلا۔دیکھاکہ والدہ صاحبہ تھوڑا ساآٹا گوندھ رہی ہیں۔
میں نے پوچھا کہ جب آٹا اتنا ہی تھا تواِس قدر تاخیر کیوں ہوئی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایاکہ بیٹے !آٹااتناہی تھااورکوئی دوسری تدبیر بھی نہیں تھی ۔ تمہاری بہن کے سب بچے بیدارتھے،میں ان کوبہلاتی رہی یہاں تک کہ وہ سب سوگئے۔اس کے بعد میں نے آٹا گوندھا ہے، اگر اُن کے سامنے آتا گوندھتی اورپکاتی تویہ اپنا حصہ لے لیتے اورمہمانوں کے لیے اتنا تھوڑا کھانا کافی نہیں ہوتا۔پکانے میں تاخیر اِسی لیے ہوگئی۔چناں چہ جب کھانا تیار ہوگیا تو میں کھانالایا اورمہمانوں کوکھلادیا۔البتہ! بچوں کے بھوکے رہنے کی وجہ سے دل بہت رنجیدہ ہوا۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ان دنوں مجھے جوکچھ کشادہ دستی حاصل ہوئی ،میراگمان ہے کہ یہ اُسی رات کا صدقہ ہے اور فقرکی یہ روشنی والدہ صاحبہ کی خدمت کی بدولت ہے۔
عبادت وریاضت :
جب پندرہ برس کی عمر میں پہنچےتوحضرت مخدوم شیخ سارنگ قدس اللہ سرہ کی خدمت میں حاضر ہو کر مرید ہوئے، اور مرتبہ عظمیٰ کے باوجود ایسی ریاضتیں کیں کہ عام لوگوں کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ حضرت مخدوم شیخ سعد لکھتے ہیں: جاڑے کی راتوں میں جب نیند غالب ہوتی تو کبھی پیراہن شریف اور کبھی کلاہ مبارک کو ٹھنڈے پانی سے تر کرتے،پہنتےاور شیخ قوام الدین قدس سرہٗ کی خانقاہ کے صحن میں بیٹھتے ۔ اگر کبھی گرم پانی سے وضو کر لیتے اور نفس کو گونہ راحت ملتی یا کاہلی آجاتی تو گرم پانی کو چھوڑ کر باسی پانی سے بلا وجوب غسل فرماتے، رات رات بھر نماز معکوس میں مشغول رہتےاور کبھی سنگریزے بچھا کر بیٹھتے ۔اگر نیندکاغلبہ ہوتاتو لیٹ جاتے ،پھرپتھروں کی تکلیف سے اٹھ بیٹھتے ،اوردیوار پر چڑھ کر بیٹھتے کہ گر پڑنے کی دہشت سے نیند نہ آئے ۔ اکثر طی کا روزہ رکھتے، چلہ کشی کرتے اور جب چلہ ختم ہونے والا ہوتاتو کسی دوست یا مسافر کے استقبال کے لیے نکل پڑتے، کبھی چلہ پورا نہ کرتے کہ کہیں نفس اس بات پر مغرور نہ ہو۔ اکثرکھڑاؤں پہن کر لکھنوسے گیارہ-بارہ کوس دور موضع منجھگاواں اپنے پیر کی زیارت کے لیے جاتے۔اس طرح ہر جہت سے نفس کو مشقت و اذیت میں ڈالتے رہتے،کیوں کہ؎
مردان بجد وجہد بجائے رسیدہ اند
تو بخیر کجا ررسی از نفس پردرے۔
شیخ سے محبت :
آپ حضرت شیخ سارنگ قدس سرہٗ کے مریدوخلیفہ تھے اور اُن سے جنون کی حد تک عشق فرماتے تھے۔یعنی ’’تک در گیر محکم گیر‘‘ پر سختی سے عامل تھے۔ایک بارکا ذکر ہے کہ شیخ سارنگ قدس سرہٗ نے کسی کام سے آپ کو کسی شہر میں بھیجا ۔جب شیخ میناواپس آئے توفرمایا کہ آدمی جس شہر میں بھی جائے،اُسےچاہیے کہ اگر وہاں کوئی درویش ہو ،اُس سے ملے۔ جس شہر میں تم گئے تھے وہاں ایک عارف باللہ ہیں، اُن سے ملے یا نہیں؟ آپ کی زبان سےبے اختیاری میں یہ نکلا کہ ؎
ہمہ شہر پر زخوباں منم و خیال ماہے
چہ کنم کہ چشم بد خو نکند بکس نگاہے
یعنی مجھ کو آپ کی محبت کا فی ہے،دوسرے سے کیا کام؟
(مستفاد از عین الولایہ ومجمع السلوک)
ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی
ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ،الہ آباد
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں