محمد مبشر حسن مصباحی
غصہ اورناراضگی انسانی سماج ومعاشرے میں ایک ایسی بیماری ہے جو عام بیماریوں سے زیادہ نقصان دہ ہے۔اس نے ایک نہ ایک فرد،بلکہ پوری دنیامیں انسانیت کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔اس وبانے نہ صرف بر صغیر ہندوستان ، بلکہ ایشیاویورپ اور دیگر ممالک کوبھی اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی غصہ اور ناراضگی کے سبب انسان ایک دوسرے سے برسرپیکارنظرآتاہے اور یہ سلسلہ آج ایک نہ تھمنے والے سیلاب کی طرح آگے ہی بڑھتاجارہا ہے۔ اس نے جہاں انسانیت کی روح، اخوت و محبت اورانسان دوستی کو پامال کر رکھا ہے وہیں خاندانی رشتے، سماجی و ملکی تعلقات اور خیرسگالی کے جذبات کوبھی متأثرکررہا ہے۔غصہ اور ناراضگی آج جس طرح جان لیوا ہیضے کی شکل میں انسانی سماج کے اندر اپنے بال وپر جمارہے ہیں ،اگر ا س پر قابو نہ پایاگیا تو وہ دن دور نہیں کہ انسانیت کا جنازہ اٹھ جا ئے اور اس کے لیے کسی میڈیسن کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انسان کو خود اس بیماری سے لڑنے کے لیے کوشش کرنا ہوگا۔
آج دوست واحباب کے درمیان جارحانہ سلوک، بھائیوں اوربہنوں میں اَن بن، باپ بیٹے اور ماں بیٹیوں کے بیچ تلخیاں،ان سب باتوںکا اصل سبب غصہ اورناراضگی ہی ہے۔ انگنت شوہروں اور بیویوں کی خوش حال زندگیاں غصے اور ناراضگی ہی کی وجہ سے اجیرن بنی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں غصہ اورناراضگی کی سخت مذمت کی گئی ہے اور حرام قراردیا گیا ہے ،جبکہ غصہ پینے ولے اور عفو در گذر سے کام لینے والوں کی تعریف وستائش کی گئی ہے،ایسے بندوںکو اللہ تعالیٰ بھی پسند کرتا جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کی خطاؤں کو معاف کردیتے ہیں،ارشادباری ہے:
وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔‘‘( آل عمران آیت:۱۱۴)
ترجمہ:اور غصہ پینے والے اور لوگوں کو در گزر کرنے والے اور اللہ احسان کرنے والے کو پسند فرماتا ہے۔
ابلیس جب مردودِ بارگاہ الٰہی ہواتو اس کی سب سے اہم اور بڑی وجہ غصہ اور ناراضگی ہی رہی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی یہ حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کروتوتمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن ابلیس نے سوچ کر کہ وہ آگ سے بنایا گیا ہے اورحضرت آدم مٹی سے اور آگ مٹی سے بہر حال افضل و اعلیٰ ہے ، اپنے غصہ اورناراضگی کا اظہارکرڈالا،اوربولا :
’’خَلَقْتَنِی مِنْ نَارِِ وَخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْن۔‘‘( اعراف ،آیت:۱۲)
یعنی اے اللہ!تو نے مجھے آگ سے بنایاہے اور آدم کو مٹی سے ۔
نتیجے کے طورپربارگاہ خداوندی سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا ،باوجود کہ وہ مُعَلِّمُ الْمَلَکُوتِ رہ چکاتھا۔معلوم ہوا کہ غصہ کرنا اور ناراض ہونا انسانی صفت نہیں ہے بلکہ یہ ایک شیطانی صفت ہے، جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے،ورنہ غصہ اورناراضگی کے سبب بندے کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ وبرباد ہوجائے گی۔
غصے کی حقیقت
غصہ اورغضب کا محل دل ہے جس کا معنی انتقام کے لیے خونِ دل کا جوش مارنا ہے۔ اس کے تین درجے ہیں:
۱۔ افراط
۲۔ تفریط
۳۔اعتدال
حدیث شریف میں ہے کہ:
بعض لوگوں کو غصہ جلد آ جاتا ہے اور جلد چلاجاتاہے یہ ایک کے بدلے میں دوسرا ہے اور بعض کو غصہ دیر میں آتا ہے اور دیر میں جاتا ہے یہاں بھی ایک کے بدلے میں دوسرا ہے، یعنی ایک بات اچھی ہے اور ایک بات بری ،ادلا بدلا ہو گیا۔اور تم میں بہتر وہ ہیں کہ جنھیں دیر میں غصہ آئے اور جلدچلاجائے اور بدتر وہ ہیں جنھیں غصہ جلد آئے اور دیر میں جائے۔
غصے سے بچو کہ وہ آدمی کے دل پر ایک انگارا ہے۔ دیکھتے نہیں ہو کہ گلے کی رگیں پھول جاتی ہیں اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں جو شخص غصہ محسوس کرے لیٹ جائے اور زمین سے چمٹ جائے۔
معلوم ہوا کہ غصہ اچھی عادت نہیں ،کیونکہ غصہ اچھے بھلے انسان کو وحشی بنادیتا ہے اوراس کے درمیان اچھے برے کی تمیز بھی مٹادیتا ہے ،جس کی وجہ سے آپس میں نفاق تو پیدا ہوتا ہے معاشرے میں بھی ا س کا غلط اثر پڑتا ہے۔
غصے کا علاج
غصے اور ناراضگی سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے اندر تشدد، انتہا پسندی، جارحیت اور کڑا پن کو جگہ نہ دیں، بلکہ تواضع و انکساری ،بردباری، لطف و کرم اور جود و سخا جیسے اعلیٰ صفات کے حامل بنیں،کیونکہ یہ صفات انسان کو غصے اور ناراضگی پر قابوپانے میں مدد کرتی ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی اور غصے کا علاج بتاتے ہوئے فرمایا:
غصہ شیطان کی طرف سے ہے اور شیطان آگ سے پیدا ہوتا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب کسی کو غصہ آجائے تو وضو کرلے ۔(ابو داؤد)
مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: جب کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ لیٹ جائے۔(ترمذی)
سیدعالم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف علاج پر اکتفا نہ کیا، بلکہ غصے سے محفوظ رہنے پر بے شمار برکتوں کی بشارت بھی دی، جیسا کہ حضرت ابو دردارضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ!
’’دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ، قال لَاتَغْضَب۔‘‘ (المعجم الکبیرللطبرانی)
ترجمہ: مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتائیں جو جنت میں پہنچا دے فرمایا غصہ نہ کرو۔
ایک دوسری حدیث شریف میں ہے:
’’ مَنْ کَظَمَ غَیْظًا وَہُوَ یَسْتَطِیعُ أَنْ یُنْفِذَہُ ، دَعَاہُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ.ی رُؤُوسِ الْخَلاَئِقِ ، حَتَّی یُخَیِّرَہُ فِی أَیِّ الْحُورِ شَاء َ.‘‘(ترمذی)
ترجمہ: جس نے غصہ کوپی لیاحالانکہ وہ غصہ کر سکتا تھا تو اللہ رب العزت اسے قیامت کے دن اختیار دے گا کہ وہ حورمیں سے جس حورکوچاہے لے لے۔
اس طرح اسلامی تعلیمات اور انسانی تجربات کی روشنی میںہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غصہ اور ناراضگی سے نہ صرف ہماری جانی و مالی نقصانات اور اتحاد کاشیرازہ بکھرتا ہے، بلکہ ہمارے اندر شیطانی اورناپسندیدہ صفتیں بھی پیداہوتی ہیں جو ہمارے ایمان کو بھی کھوکھلا کردیتی ہیں اور ہمارے سماج ومعاشرے کو بگاڑدیتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان بلاؤں سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔(آمین)
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں