Jihad e Haqeeqi Ka Matlab

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

 جہاد کا حقیقی مطلب
مولانااشتیاق عالم مصباحی 

’’ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔‘‘
لفظ ’’جہاد ‘‘ جب بھی بولا جاتا ہے تو عام طور سے لوگ اس کا معنی’’ قتال اور جنگ ‘‘سمجھتے ہیں جب کہ لغت میں ’’جہاد‘‘ کا معنی پوری طاقت صرف کرنے اور کوشش کرنے کے ہیں ،قرآن مقدس میں ہے :
’’ وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادَہ۔‘‘
(سورہ حج، آیت:۷۸)
ترجمہ: اللہ کے راستے میں پوری کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔
قرآن مقدس میں جہاں جنگ کی بات کی گئی ہے وہاں پر لفظ ’’قتال‘‘ کا استعمال ہوا ہے مثلاََ:
 ’’کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ۔‘‘ (سورہ بقرہ ،آیت: ۲۱۶)
ترجمہ: تم پر قتال فرض کردیاگیا ۔
 ’’فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ۔‘‘(سورہ توبہ، آیت:۵ )
ترجمہ:جب حرمت والے مہینے ختم ہو جائیں تو مشرکوں سے قتال کرو۔
لیکن جہاں لفظ ’’جہاد ‘‘کااستعمال ہوا ہے وہاں’’ جہاد ‘‘ سے مراد صرف قتال ہی نہیں ہے ،بلکہ اس کا معنی ’’کوشش‘‘ بھی لیاگیاہے،اللہ رب العزت کا فرمان ہے :
’’ وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔‘‘ (سورہ عنکبوت ،آیت :۶۹ )
ترجمہ:جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ،ہم انھیں اپنی راہ دکھاتے ہیں۔ 
سورۂ لقمان میں ہے:
’’ وَجَاہِدْہُم بِہ جِہَاداً کَبِیْرًا۔‘‘ (آیت :۵۲ )
ترجمہ: قرآن کے ذریعے دعوت الی اللہ کی بھرپور  کوشش کرو۔
 یہ دونوں آیتیں مکی ہیں یعنی مکہ شریف میں نازل ہوئی ہیں جبکہ جنگ مکہ معظمہ سے ہجرت کرنے کے بعد واجب ہوئی ہے ۔
جہاد کی اصطلاحی تعریف 
دین کے غلبے ،اس کی حفاظت اور دعوت و تبلیغ کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا اور اس پر اپنا مال ،اپنی زندگی اور اپنی زبانی قوت خرچ کرنے کانام ’’جہاد‘‘ ہے ۔
عام طور سے جسے ہم جہاد سمجھتے ہیں یعنی قتال ،وہ جہاد کی آخری منزل اور اس کی ایک خاص قسم ہے ،یعنی دشمن طاقتوں کو توڑنا ،ان کی ہر تدبیر کو بے کار بنانا ،ان کے حملوں کو روکنا اور ان سے مقابلے کے لیے ہر وقت تیاررہنا ،وہ بھی اس وقت جب کہ دین قائم ہو اور صلح کی کوئی گنجائش نہ ہو ، قرآن مقدس میں ہے :
’’وَإِن جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا۔ ‘‘(سورہ انفال، آیت:۶۱)
ترجمہ:اگر وہ لوگ صلح کے لیے آمادہ ہوں تو صلح کرلو ۔
کیونکہ اگر صلح کی کوئی صورت نکل آتی ہے تو اس وقت جنگ کرنا اور خون بہانا جائز نہیں ،اس لیے کہ قتال مشرکوں اور کافروں کے سر قلم کرنے کے لیے واجب نہیں ہوا ہے بلکہ قتال کا مقصد شرک وکفر کا خاتمہ ہے ،اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :
’’وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ ِفتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہ لِلّٰہِ۔‘‘(سورہ انفال،آیت:۳۹)
یعنی جب تک فتنہ ختم نہ ہو جائے اور دین خالص اللہ کے لیے نہ ہوجائے اس وقت تک مشرکوں سے جنگ کرو ۔
اسلام پاک اور صاف ستھرے مذہب کا نام ہے جو دنیا سے ظلم و جبرختم کرنے اور عدل و انصاف قائم کرنے کابہترین نظام ہمیں عطا کرتا ہے ،جس میں ظلم کا شائبہ اور اس کی تھوڑی سی بو بھی ہو تو اسلام ہمیں ان چیزوں سے الگ رہنے کی تعلیم دیتا ہے ۔
ایک بارٹھیک میدان جنگ میںحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے سامنے مشرکین کی جماعت سے ایک شخص آیا اور کلمۂ طیبہ’’ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ اس کی زبان سے نکلا ،حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا سر قلم کر دیا ،یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی ،آپ کے سوال پر حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ اس نے تلوار کے خوف سے اسلام ظاہر کیا تھا ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے اس کا سینہ چیر کر دیکھا تھا ؟
جہاد کے اقسام
جہادکی موٹی موٹی تین قسمیں ہیں:
۱۔جہاد بالنفس ،یعنی نفس سے جہادکرنا
۲۔جہاد بالمال ،یعنی مال کے ذریعے جہادکرنا
۳۔جہاد باللسان،یعنی زبان کے ذریعے جہادکرنا۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’جَاھِدُوا الْمُشْرِکِیْنَ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ۔‘‘(ابو داؤد : کتاب الجہاد )
یعنی اپنے مال ،اپنی جان اور اپنی زبانی قوت خرچ کرکے دین کی حفاظت اور اس کی سربلندی کے لیے مشرکین سے جہاد کرو ۔
جہاد بالنفس
علامہ اسماعیل حقی نے جہاد کی تعریف اس طرح کی ہے:
 ’’استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو۔‘‘
یعنی دشمن سے مقابلے کے لیے ہر طرح سے کوشش کرنا ، مزید لکھتے ہیں کہ جہاد ظاہری اور باطنی دونوں طرح کے دشمنوں کو شامل ہے ،ظاہری دشمن کفار ومشرکین ہیں اور باطنی دشمن سے مراد نفس اور شیطان ہے ۔
حضرت ابن عطا اسکندر ی نے کہا ہے کہ: مخلوق سے الگ ہوکر خالق کا ہو جانا،یہی مجاہدہ اور جہاد ہے ،یعنی اپنی نفسانی خواہشات سے مسلسل جدوجہد اور صبر آزما جنگ کا نام جہاد ہے ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :
’’وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ، فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَأْویٰ۔‘‘
 (سورہ نازعات:۴۰؍۴۱)
یعنی جو لوگ اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں اور خواہش نفس سے بچتے ہیں ،ان کا ٹھکانا جنت ہے ۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’اَفْضَلُ الْجِھَادِ اَنْ تَجَاھَدْ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ۔‘‘( دیلمیہ، بحوالہ جمع الجوامع)
ترجمہ: سب سے افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنی خواہش اور نفس کے خلاف اللہ کی راہ میں مستقل کوشش کرو ۔
یعنی جس طرح تم اپنے دشمنوں سے مقابلے کے لیے ان کے ہر حربے ا ورچال پر نظر رکھتے ہو، اسی طرح اپنے نفس پر نظر رکھو ،جو تمہارا اصلی اور ازلی دشمن ہے ۔
یہی سبب ہے کہ خواہشات نفس سے جنگ کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’جہاد اکبر‘‘ کہاہے اور جو ہمیشہ نفس پر نظر رکھتے ہیں انھیں مبارک بادی بھی پیش کی ہے ، جیساکہ حدیث پاک میں ہے :
’’مَرْحَباً بِکُمْ قَدِ مْتُمْ مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِقِیْلَ وَمَاالْجِھَادُ الْاَکْبَرُ ؟قَالَ       جِہَادُ النَّفْسِ۔ ‘‘             (بیہقی بحوالہ جمع الجوامع)
ترجمہ:مبارک ہو !تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے ،عرض کیا گیا کہ جہاد اکبر کیاہے؟توآپ نے فرمایا وہ جہاد بالنفس ہے ۔
واضح رہے کہ جہاد اکبر کے بغیر جہاد اصغر کا تصورناقص ہے،حقیقت میں وہی شخص اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جنگ میں اتر سکتاہے جو اپنے آپ کو اللہ و رسول کی مرضی کے مطابق کر چکا ہو ۔
جہاد بالمال
دین حق کی سر بلندی کے لیے اپنی دولت، تخت وتاج سب کو قربان کردینا، جہاد بالمال ہے ،اس کی بہترین مثال غزوئہ تبوک ہے ،جس میں جانثارصحابہ کرام نے ڈھائی اور پانچ فیصدہی نہیں بلکہ اپنی آدھی دولت اور بعض نے تو پوری دولت اللہ کی راہ میں قربان کر دیا ۔
جہاد باللسان 
جہاد باللسان کو دوسرے لفظوں میں جہاد بالعلم بھی کہا جاتاہے ،یعنی اپنی زبانی قوت ،تقریر ،تحریر،تدریس اور وعظ ونصیحت کے ذریعے دین کا غلبہ اور اس کی حفاظت و حمایت کرنا اور دنیا سے تمام شر وفساد مٹانے کی کوشش کرنے کا نام جہاد باللسان ہے ۔
عصر حاضر میں جہاد بالنفس اپنے عرفی معنی کے اعتبار سے واجب نہیں ہے ،لیکن اپنے اصلی اور حقیقی معنی کے لحاظ سے جہاد کی یہ جملہ صورتیں آج بھی بلکہ ہر وقت واجب ہیں ۔
مقصد جہاد 
اسلامی جہاد خون بہانے ،جانی و مالی نقصان پہنچانے اور ظلم و زیادتی کا نام نہیں ہے ،بلکہ دنیا والوں کو دنیاکے خالق ومالک سے رشتہ مضبوط کرنے ،اس کے احکام کے مطابق زندگی گزارنے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول کی مکمل اتباع کرنے کا نام ہے اور یہی جہاد کا اصل مقصدہے۔
مزید جہاد کے یہ چند مقاصد بھی ہوسکتے ہیں،جیسے :
۱۔ غلبہ دین اور اسلامی نظام کاقیام
۲۔آیات الٰہیہ کی حفاظت  
۳۔ دنیاسے شر وفساد کاخاتمہ
۴۔انقطاع عن الخلق،یعنی دنیا سے بالکل الگ تھلگ ہوجانا
غلبہ دین اوراسلامی نظام 
اس کا مطلب یہ ہے کہ دامے ،درمے ،قدمے ،سخنے ہر طرح سے دین کو غالب کرنے کی کوشش کرنا ،یعنی اگر دین کے لیے قرض لینے کی ضرورت پڑجائے تو قرض لے کر ،اگر خود کفیل ہو تو اپنا مال خرچ کر کے ، اگرتنگدست ہو تو اپنی محنت ومشقت اور جسمانی قوت صرف کر کے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنی زبانی قوت ،تقریر ، تحریر اوروعظ ونصیحت کے ذریعے اسلامی نظام قائم کرنے کی کوشش وغیرہ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :جوکوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے ،اگر یہ نہ ہوسکے تو اپنی زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اپنے دل سے براجانے۔
(صحیح مسلم)
آیات الٰہیہ کی حفاظت
آیات،آیت کی جمع ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں۔جب ’’آیت اللّٰہ ‘‘بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ نشانی ہے جس کے ذریعے اللہ تعالی کی پہچان ہو ۔عام طور سے لوگ آیت سے قرآنی آیات سمجھتے ہیں ،حالانکہ جملہ مخلوقات ، علما باللہ ،صلحا، صوفیا اور اولیا سب اللہ کی نشانیاں ہیں،کیونکہ انھیں دیکھنے سے بھی اللہ کی یاد آتی ہے ،ارشادباری تعالیٰ ہے:
’’ إِذَا سَمِعْتُمْ اٰیَاتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُواْ مَعَہُمْ‘‘( سورہ نسا، آیت: ۱۴۰)
ترجمہ:جب تم اللہ کی آیتوں کا انکار اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو ایسے لوگوں سے الگ ہو جائو ۔
شر وفساد کاخاتمہ 
اللہ تعالیٰ فسادیوں کو محبوب نہیں رکھتا خواہ وہ فساد زمین میں ہو یا بندے کے نفس میں ،انسان کاوجود ایک ملک کی حیثیت رکھتا ہے جس میں کسی طرح کافساد اللہ کو پسند نہیں ہے،اللہ رب العزت کاارشاد ہے :
’’وَأَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ إِلَیْْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْأَرْضِ۔‘‘(سورہ قصص، آیت :۷۷)
ترجمہ:جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے اسی طرح تم بندوں کے ساتھ احسان کرو اور زمین میں گناہ اور ظلم وزیادتی کرکے فساد نہ پھیلائو ۔
انقطاع عن المخلوق
یعنی تمام مخلوقات سے الگ ہوکرصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجانا ،اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے : 
’’وَأَنْ أَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً۔‘‘(سورہ یونس ،آیت: ۱۰۵ )
ترجمہ:تمام سے الگ ہوکر اپنا وجود صرف دین کے لیے کرلو۔
اب اگر کوئی جہاد اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا تو یقین جان لیجئے کہ وہ سہی معنوںمیں اسلامی جہاد نہیں ۔

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو جہاد کا صحیح معنی اور مفہوم سمجھنے اور سمجھانے کی توفیق بخشے ۔(آمین)

0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں