اخلاص اور ریا
سیدسلمان چشتی
دور حاضر میں اگر آپ مسلمانوں کے احوال و اعمال اور نظریات و افکار کا جائزہ لیں تو یہ امر آپ پربالکل واضح ہو جائے گا کہ عام طورپرمسلما ن نیک اعمال سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں کچھ لوگ کسی طرح نیک اعمال کرتے بھی ہیں توان کے اعمال اخلاص سے خالی ہو تے ہیں۔ آخر یہ قوم مسلم کب تک غفلت کی چادر اوڑھے سوتی رہے گی اوراپناقیمتی وقت بربادکرنے میں مصروف رہے گی؟اور کب اپنے خالق کی بے لوث محبت میں اپنے شب و روز گزارے گی؟ کیا مسلمانوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے مولیٰ کی عبادت و ریاضت کر کے کامیابی ا ور کامرانی سے ہم کنار ہوں؟ کیا ان کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد کی تکمیل کے ذریعے دارین کی سعادت سے بہرہ ور ہوں؟ اور اپنے محبوب حقیقی کی معرفت حاصل کر کے اس کو راضی او رخوش کر یں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ امت بھی پچھلی امتوں کی طرح ہلاک کر دی جائے، جنھوں نے اپنی تخلیق کے مقصدکو پس پشت ڈال دیا تھااور اپنے مولیٰ کی نافرمانی میں مشغول ہو گئے تھے،الامان و الحفیظ۔
میرے کہنے کامقصد فقط اتنا ہے کہ مسلمان اپنے مولیٰ کی معرفت حاصل کریں اور دنیاوآخرت کی سعادت سے مشرف ہوں، اپنے معبود حقیقی کی خوب خوب عبادت کریں اوراس کی عبادت صرف اور صرف اسی کے لیے کریں کہ وہی تنہاعبادت کے لائق ہے اور اپنے تمام کے تمام نیک اعمال میں اخلاص پیدا کریں۔
اعمال میں اخلاص پیداکرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام اعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے کرے ، جنت کی چاہت یا نار جہنم سے بچنے کے لیے نہ کرے بلکہ اس میں یہ بھی نیت رکھے کہ جنت میں محبوب حقیقی کی خاطر جائوں گا اور جہنم میں اس کی ناراضگی کی وجہ سے جائوں گا ، کیونکہ ایک سچے عاشق کے لیے ضروری ہے کہ ہر کام رضائے مولیٰ کے لیے کرے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاء ‘‘(سورۃ البینۃ،آیت:۴)
یعنی ان کو صرف اسی چیز کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کراللہ کی عبادت کریں ۔
اوراسی لیے اللہ جل مجدہ دین یعنی عبادت کے اندر امت مسلمہ کو اخلاص کی تعلیم دے رہا ہے کہ وہ اپنے تمام اعمال کو صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے کریں اور اس میں غیر کا شائبہ تک نہ ہونے دیں۔
نیزاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جسے میں کسی شخص کے دل میں رکھ دیتا ہوں پھر خود اس سے محبت کر نے لگتا ہوں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ سے اخلاص کے تعلق سے دریافت کیا تو آپ نے فر مایا:
’’اَنْ تَقُولَ رَبِّی اللّٰہُ ثُمَّ تَسْتَقِیْمَ کَمَا اُمِرْتَ۔‘‘(احیاء العلوم ج/۴،ص/۳۸۲)
تم کہو میرا رب اللہ ہے پھر اسی پہ قائم رہو جس طرح قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے
اخلاص اور صالحین
حضرت معروف کرخی خود کو کوڑے سے مارتے اور فرماتے اے نفس! اخلاص کیا کر، تاکہ تجھے نجات حاصل ہو۔
شیخ ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا وہ شخص نیک بخت ہے جو تمام عمر اخلاص کے قدموں سے چلا اور اس کام میں اس نے رضائے الٰہی کے سوا دوسرا کچھ نہ چاہا۔
صالحین اورصادقین کے اخلاص میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ علم میں نہایت خلوص رکھتے تھے اور اس میں ریا کی آمیزش سے سخت ڈرتے تھے،حضرت حسن بصری اکثر اپنے نفس پر عتاب فرماتے اور اس کو جھڑک کر کہتے کہ تو باتیں طاعت گزاروں ، پرہیزگاروں اور عابدوں جیسی کرتا ہے مگر تیرے افعال فاسقوں، منافقوں اور ریاکاروں جیسے ہیں،واللہ یہ مخلصوں کے صفات نہیں ہیں۔
حضرت یحیٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آدمی مخلص کب ہوتا ہے؟تو انھوں نے فرمایا جب اس کی عادت شیرخوار بچے جیسی ہو جائے کہ تعریف اور مذمت کی وہ کچھ پرواہ نہ کرے۔
ابو عبد اللہ انطاکی فرماتے ہیں کہ جو شخص ظاہری اعمال میں خلوص پیدا کرنے کا طالب ہو، اور دل میں لوگوں کا خیال رکھے وہ ایک امر محال کا طالب ہے، کیوں کہ اخلاص تو ایک ایسا پانی ہے جس سے دل کو زندگی نصیب ہوتی ہے اور ریا اس کی موت ہے۔
ریا کی علامت
حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے محفل میں اپنے آپ کو برا کہا اس نے درحقیقت اپنی تعریف کی اور یہ بھی ریا کی علامتوں میں ہے۔
ابن سماک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص اپنے علم و عمل کے بارے میں لوگوں کو اپنے دل کی بات سے آگاہ کرے تو لوگ اسے برا جانیں اور اسے بے وقوف کہیں تو یہ بھی ریاکاری ہے۔
حضرت ابراہیم بن ادہم فرماتے تھے کہ کوئی دوست اپنے دوست سے روزے کے تعلق سے دریافت نہ کرے، کیوں کہ اگر اس نے کہا کہ میںر وزے سے ہوں تو اس کا نفس خوش ہوگا اور اگر انکار کیا تو اس کا نفس غمگین ہوگا اور یہ دونوں ریا کی علامت ہے۔
اخلاص کی علامت
امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب کسی کو گردن جھکائے دیکھتے تو اسے کوڑے مارتے اور فرماتے تیرا بھلا ہو خشوع تو دل میں ہوتا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ ایک روز کسی شخص کے پاس سے گزرے جو سجدے میں رو رہا تھا تو فرمانے لگے کیا ہی اچھا ہوتا اگر تو گھر میں ہوتا جہاں تجھے کوئی نہ دیکھتا۔
ابراہیم بن ادہم نے فرمایا میں ایک روز ایک پتھرکے پاس سے گزرا جس پر لکھا ہوا تھا کہ تو اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا، پھر مزید علم کا طالب کیوں ہے۔
مولیٰ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم میں سے ہر شخص کو اخلاص کی دولت سے مشرف فرمائے اور ہم میں سے ہر شخص کو اپنی تخلیق کے مقصدسے سرفراز فرمائے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں