Khwaja Moinuddin Chishti Quddisa Sirruhu

Alehsan Media
0


خواجہ معین الدین چشتی قدس اللہ سرہٗ 
 جہاں گیرحسن مصباحی

سلطان الہندخواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ سیستان کے قصبہ سنجر میں۵۳۷ہجری کو پیدا ہوئے۔آپ ایک دین داراور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نجیب الطرفین سیدہیں۔بچپن ہی سے نرم دل اور شریف طبیعت کے مالک تھے۔آپ کی طبیعت بچوںکی عام عادت اور مزاج سے یکسرجداتھی،بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بچپن کے زمانے سے ہی خواجہ غریب نواز کے اندر وہ تمام آثارنمایاں تھے جو ایک مردمومن کی علامت اور پہچان ہوتی ہے۔
تعلیم وتربیت:
حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی نشو و نما خراسان میں ہوئی اوروہیںپلے بڑھے۔جب پندرہ سال کے ہوئے تو والد بزرگوار کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ترکہ میں ایک باغ ملاہواتھا، اسی کی نگہبانی کیا کرتے تھے۔ ایک دن ابراہیم قندوزی نامی بزرگ باغ میں آئے۔ خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی خدمت میں انگور کے خوشے پیش کیے لیکن انھوں نے انگور نہیں کھایااورکھلی کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے چبا کر خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کو دیا۔اس کھلی کا کھانا تھا کہ حضرت کا دل انوار الٰہی سے معمورہو گیا۔ علائق کو چھوڑ کر طلب حق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور سمرقندوبخارا پہنچے۔وہیں کلام مجید حفظ کیا اور علوم ظاہری کی تکمیل فرمائی۔
شرف بیعت :
تعلیم مکمل کر نے کے بعد عراق پہنچے اور حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ سے شرف بیعت حاصل کی۔کچھ دنوںتک مرشد کی خدمت میں رہے اورطریقت و معرفت کی منزلیں طے کیں۔ پھرجب عشق رسول کی تپش بڑھی تو مدینہ طیبہ کا ارادہ کیا،وہاںکچھ دن گذارنے کے بعدبارگاہ نبوی سے اشارہ ملا کہ ہندوستان جائو اور دین اسلام کی تبلیغ کرو۔
ہندوستان آمد:
خواجہ رحمۃ اللہ علیہ مختلف مقامات مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے ہندوستان تشریف لائے۔ آپ جس وقت تشریف لائے،اس وقت ہندوستان میں ہر طرف کفر و ضلالت کابازار گرم تھا۔ انسانیت انسانوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی تھی۔ لوگ ایک خدا کی پرستش کے بجائے کئی خداؤں کا تصور رکھتے تھے اور طرح طرح کے خرافات میںمبتلا تھے۔ ایسے حالات میں آپ نے توحید و رسالت کی ایسی شمع روشن کی کہ اس کی روشنی سے سرزمین ہندآج تک منورہے اورتاقیامت یوں ہی منور رہے گی۔
ہر دور میں ہندوستان کے حکمرانوں کو خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے بے پناہ عقیدت رہی۔اس کے شواہد تاریخی دستاویزات کے ساتھ ساتھ، درگاہ اجمیر شریف میں ان بادشاہوں کی حاضری، تعمیرات اور نذر و نیاز جیسے اعمال ہیں۔
ازدواجی زندگی:

خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی دو شادیاں ہوئیں، جن میں ایک ’’عصمت بی بی‘‘ جو حاکم اجمیر کی بیٹی تھیں اور دوسری ایک ہندو راجہ کی لڑکی ’’بی بی امۃاللہ‘‘ تھیں جو مشرف بہ اسلام ہو گئی تھیں۔
خواجہ علیہ الرحمہ کے تین لڑکے سید فخرا لدین، سید ضیاء الدین ابو سعید اور سید حسام الدین رحمۃ اللہ علیہم تھے اور ایک بیٹی ’’بی بی حافظہ جمال ‘‘رحمۃ اللہ علیہا تھیں۔
معمولا ت:
ایمان کی اصل یہ ہے کہ مومن کے اندر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ماں ،باپ ، اولاد اور مال، بلکہ ہرچیزسے زیادہ ہو،جس قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی اسی قدر ایمان میں مضبوطی آئے گی۔خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے معمولات دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی تمام زندگی عشق الٰہی اورعشق رسول میں گزری۔اللہ عز وجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بہت ہی والہانہ انداز سے کرتے اورہمیشہ اس بات کا خوف رہتا کہ کہیں حقوق اللہ اور حقوق العبادمیں کوئی کوتاہی نہ ہوجائے،جس کے سبب کل قیامت میں اللہ عز وجل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ ہوناپڑے۔
مجاہدے کا یہ عالم تھا کہ بہت ہی کم سوتے۔ اکثر عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے۔کثرت سے کلام پاک کی تلاوت کیا کرتے۔ کسی شہر میں پہنچتے تو قبرستان میں قیام کرتے اور جب لوگوں کو ان کی خبر ہو جاتی تو وہاں سے چل دیتے۔بدن پر برابرفقیرانہ لباس ہوتا۔ اگر وہ کہیں سے پھٹ جاتا تو جس رنگ کا کپڑا ملتا اسی کا پیوند لگا لیتے۔ کھانا بہت کم کھاتے۔اکثر روزہ رکھاکرتے۔بعض تذکرہ نگاروں نے لکھاہے کہ آپ صائم الدہر تھے۔ سفر میں تیر و کمان، نمکدان اور چقماق ساتھ رکھتے ،تاکہ افطار میں کوئی دقت نہ ہو۔
یوں تو تمام صوفیااوراولیا حلیم وبردباراور عفوودرگذرکاپیکر ہوتے ہیں لیکن خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ درویشانہ صفت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ ’’ یا رَبِّ حَبْلِیْ اُمَّتِی‘‘ کی طرزپراپنے مریدین ومتوسلین کے لیے دعائیں کرتے اور اپنے ہر عمل سے سنت نبوی کاپیغام دیتے ۔پڑوسیوں کا بھی اچھی طرح خیال رکھتے۔ جب کوئی ہمسایہ انتقال کر جاتا تو اس کے جنازے میں شریک ہوتے۔ لوگ واپس لوٹ جاتے لیکن آپ دیر تک اس کی قبر کے پاس دعائیںکرتے رہتے۔عذاب قبر کا خوف بھی آپ میں حد درجہ تھا، جب کبھی قبر کا ذکر آتا تو چیخیں مار کر رو پڑتے۔
سماع:
خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سماع کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ان کی محفل سماع میںبڑے بڑے علماا ور مشائخ شریک ہوتے تھے۔ان کاخیال تھا کہ سماع اسرار حق اور معرفت الہٰی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سماع میں اللہ اور بندے کے درمیان کے سارے حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ پھرجب بندے پرعشق الہی کا غلبہ ہوتاہے اوراللہ کی ہیبت و خشیت طاری ہوتی ہے تواس کا قلب انواروتجلیات سے بھرجاتاہے اوروہ و جدوسرور کی ایمانی کیفیت سے سرشارنظرآتا ہے۔
تصانیف:
بعض لوگوں نے خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی جانب جن تصانیف کو منسوب کیا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔انیس الارواح
۲۔ گنج اسرار
۳۔کشف الاسرار
۴۔دلیل العارفین
اول الذکر تصنیف خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات پر مشتمل ہے ۔اس میں دیوان معین کے علاوہ کئی مختلف رسالے بھی ہیں جبکہ آخرالذکرتصنیف خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر مشتمل ہے، جس میں اخلاق، نماز، روزہ، تلاوت،معرفت کی باتیں اور سلوک کے مقامات وغیرہ کا ذکرمختصر اورجامع طورپرہے۔
وصا ل:
خواجہ رحمۃ اللہ علیہ عشا کی نماز پڑھ کر اپنے حجرے میں گئے ، دروازہ بندکرلیااورکچھ دیربعدایسے پاؤں پٹکنے کی آواز آنے لگی جیسے کوئی وجد وکیف کے عالم میں پٹکتاہے اور اسی وجد کے عالم میں آخر شب کو ان کی روح پرواز کر گئی اور یوں ’’حبیب اللہ، حب اللہ‘‘ کی خاطر جاں بحق ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن 


Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !