Makhdoom Shah Arif Safi

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ
حسین سعید صفوی

اس خاکدان گیتی پر اللہ جل شانہ نے انبیائے کرام کی نیابت کے لیے بے شمار اولیائے عظام کو مبعوث کیا تاکہ وہ دینی خدمات انجام دیں اور نظام نبوی کو باقی رکھیں۔ہر ایک نے اپنی ذمے داریاں نبھائیں اور داعی اجل کولبیک کہا۔ ان میں کچھ ایسے تھے جن کے چلے جانے کے بعد ان کی شہرت باقی نہ رہ سکی ،مگر اللہ کے کچھ خاص بندے ایسے بھی تھے جن کو اس دنیا سے رحلت کیے صدیاں گذرگئیں لیکن انھیں دنیا اور اس میں رہنے والے لوگ آج بھی اسی طرح یادکرتے ہیں اور ان کے ترانے گاتے ہیں جیسے کہ وہ ان کی ظاہری زندگی میں گایا کرتے تھے۔
اور ایسا کیوں نہ ہو کہ انھوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے میں گذاردی،یہاں تک کہ اپنی جان بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردی،یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان وعظمت کو نہ صرف بڑھایا بلکہ ان کے بارے میں یہ ارشادفرمایا:
’’وَلاَ تَقُوْلُوْالِمَنْ یُّقْتَلُ فیِ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمَوَاتٌ۔‘‘(سورہ بقرہ، آیت:۱۵۴)
یعنی جو اللہ تعالی کی محبت میں قتل کیے جائیں انھیں مردہ گمان بھی نہ کرو۔
انھیں خاص بندوںمیں حضرت مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ کا بھی شمارہوتاہے۔
ولادت باسعادت
مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ آج سے تقریباََ۱۵۰؍برس پہلے تہذیب وثقافت کے امین شہر’’ا لٰہ آباد‘‘سے ۲۱؍کیلو میٹر مغرب میں واقع ’’سیدسراواں‘‘ گاؤں میں پیدا ہوئے۔سنہ پیدائش کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے لیکن اتنا توطے ہے کہ انھوں نے کل بیالیس برس کی عمر پائی ،اس لحاظ سے ایک اندازے کے مطابق ان کی سنہ پیدائش ۱۲۷۸؍ہجری مطابق ۱۸۶۱؍عیسوی ہوتی ہے، کیونکہ تاریخ وفات جو یقینی ہے ۱۳۲۰ھ مطابق ۱۹۰۳ ہے۔والدین کریمین نے آپ کا نام ’’امیرعلی‘‘رکھالیکن عوام کے درمیان ’’عارف صفی‘‘کے لقب سے مشہورہوئے، اس کے علاوہ آپ کو ’’سلطان العارفین‘‘اور’’گیسودراز‘‘جیسے القابات سے بھی موسوم کیا جاتارہا ہے۔ 
تحصیل علم
سلطان العارفین شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ نے ابتداتا انتہا تمام طرح کے علوم وفنون سیدسراواں کے گردونواح میں ہی حاصل کیا اور سولہ برس کی عمرہی میں تمام علوم و فنون سے سرفراز ہوگئے۔
بیعت وخلاقت
جب ظاہری علوم وفنون سے فارغ ہوگئے تودل کے ہاتھوں مجبورہوکر باطنی علوم کی جانب متوجہ ہوئے اوراپنے وقت کے مشہور صوفی ،ولی کامل حضرت وارث پاک رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔انھوں نے چندلمحوں کے لیے آنکھیں بندکیں اوریہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ پیارے! رب کائنات تمھیں اعلیٰ مقام عنایت فرمانے والاہے مگر تمھارا حصہ میرے پاس نہیں ہے بلکہ بارہ بنکی میں مقیم حضرت عبد الغفور صاحبِ سرّ قل ھواللہ شاہ (رحمۃ اللہ علیہ )کے پاس ہے۔چنانچہ حضرت مخدو م شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ،قطب عالم حضرت قل ھواللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے اور جیسے ہی آنکھیں چارہوئیں اور نگاہ رخ زیباپر پڑی تو پل بھر دیرکیے بغیردل دے بیٹھے۔پھر دل ہی دل میں تمام مراحل طے ہوگئے اب صرف رسم بیعت باقی تھی جو دوسرے دن رسمی طورپر انجام پائی۔
حضرت قل ھواللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ کو تمام رموزحقیقت سے آشناکراتے ہوئے محض بیس برس کی عمرمیں خلافت سے بھی نوازدیااور خدمت خلق کے لیے مامور کیا ۔جس فریضے کو مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ نے بڑی خوب اسلوبی کے ساتھ انجام دیا اوردنیا نے دیکھاکہ ایک بڑی تعدادمیں مخلوق خدا نے آپ سے فیض حاصل کیا۔
خلفاء
آپ نے جاںنثار خلفا کی ایک جماعت تیار کی تھی جنھوں نے ملک کے مختلف گوشوں میں دعوت و تبلیغ کے عظیم فرائض انجام دیے ان کی صحیح تعدادکاتعین سخت مشکل ہے البتہ ان میں درجہ ذیل خلفا نے بہت شہرت حاصل کی :
(۱) حضرت شاہ صفی اللہ محمدی عرف شیخ نیاز احمد میاں صاحب قدس اللہ سرہ خلف اکبر و جانشین اول(سید سراواں،الٰہ آباد) 
(۲) مخدوم شاہ ظہور اللہ محمدی عرف سید عبد اللطیف قدس اللہ سرہ(پرخاص،الٰہ آباد)
(۳) مخدوم شاہ علیم اللہ محمدی قدس اللہ سرہ(نیم سرائے، الٰہ آباد)
(۴) مخدوم شاہ نعمت اللہ محمدی عرف مولانا حاجی سید محمد امین اللہ قدس اللہ سرہ(کلکتہ)  
 حضرت شاہ صفی اللہ محمدی عرف شیخ نیاز احمد میاں صاحب قدس اللہ سرہ نے اپنے چھوٹے بھائی حضرت شاہ محمد خادم صفی محمدی عرف شیخ ریاض احمد قدس اللہ سر ہ کو خلیفہ و جانشیں مقرر فرمایا اور ان کے جانشیں داعی اسلام حضرت شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ صفوی محمدی ادام اللہ ظلہ علینا ہیں جو آج بھی ’’خانقاہ عارفیہ‘‘ سید سراواں سے فیض کا دریا بہا رہے ہیں۔
ملفوظات
(۱)ارشاد فرمایا : جس کسی کو فقر میں کمال حاصل ہوتاہے وہ یاد الٰہی میں ہمیشہ مشغول رہتاہے ۔قناعت اس کا شیوہ ہوتاہے، بلائوں میں صبراور رضائے الٰہی پر شاکر وقائم رہنا اس کا طریقہ ہوتاہے ۔دل سے لالچ کی جڑکو اکھیڑ چکا ہوتاہے اور شریعت حَقّہ کی پیروی کے لیے چُست ہوتاہے ۔
(۲)ارشاد فرمایا:طالب آخرت دنیاوی لذات کے پیچھے نہیں پڑتے، آخرت کے مزے اور لذتیں دنیاوی لذات سے بہت اعلی وافضل ہیں ۔
(۳)ارشاد فرمایا: جس شخص کا اعتقاد عقل پر منحصر ہوتاہے وہ خواہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دلائل وبراہین کا خواہاں وجویاں رہتاہے، توہمات سے اسے چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا دل عشق کی طرف مائل ہوتاہے ۔لہذا چاہئے کہ توہمات ِدلائل وبراہین سے علاحدہ ہوکر خدا و رسول اور اولیاء اللہ کے عشق ومحبت کی قید میں آجائے ۔
تصنیفات
مخدوم شاہ عارف صفی رحمۃ اللہ علیہ کی یادگار تصانیف یہ ہیں:
(۱)مثنوی معرفت
(۲)دیوان عارف
(۳)مراۃ الاسرار
(۴)گنجینئہ اسرار  
وفات
آپ پوری زندگی اصلاح وتربیت اور دین کی تبلیغ واشاعت میں لگے رہے اور ہمیشہ مذہب حق کی سربلندی کے لیے فکرمندرہے لیکن ابھی آپ زندگی کی بیالیس بہاریں ہی دیکھ پائے تھے کہ پروانۂ اجل نے آواز دی اور حضرت مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوگئے اور اس طرح بیالیس برس کی عمرپاکر ۱۸/ذی قعدہ سنہ۱۳۲۰ہجری مطابق ۱۹۰۳ عیسوی میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔  اناللّٰہ واناالیہ راجعون
ان کوپردہ فرمائے آج برسہابرس بیت گئے ہیں،لیکن پھر بھی ان کے فیض کا دریا جوں کاتوں جاری ہے ۔لوگ آج بھی آتے ہیں ،فیض پاتے ہیں اور دلی سکون حاصل کرکے واپس ہوتے ہیں۔سیدسراواںمیں آج بھی حضرت مخدوم شاہ عارف صفی علیہ الرحمہ کا مزارمبارک مرجع خلائق بناہواہے۔  
اللہ جل مجدہ سے دعا ہے کہ ان کے فیضـ کا ایک وافر حصہ ہم سب کو عنایت فرمائے۔(آمین) 



0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں