داستان مرد مومن
طارق رضا قادری
دوپہر کی گرمی شباب پر تھی، گرم اور خشک ہواؤں نے ریگستان کو جہنم بنا رکھا تھا، قرب و جوار کی بڑی اور سہیب چٹانوں پر اس وقت گویا موت رقص کر رہی تھی، ہر طرف دھوپ کی تمازت میں تپتی ریت ، ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر معلوم ہو رہی تھی، ایسی جان لیوا جگہ جہاں بھولے سے کوئی مسافر بھی رخ نہیں کرتا، ایک پریشان حال آدم زاد تڑپ رہا تھا، تندرست جسم اور خوبرو آنکھوں کی بناوٹ کہہ رہی تھی کہ وہ عربی النسل ہے۔ لیکن اس وقت اس کے جسم پر جگہ جگہ خراشوں کا جال بچھا تھا اور جلتے چھالوں سے دھواں اٹھ رہا تھا، پورا جسم شل ہو کر رہ گیا تھا۔ سامنے جلی ہوئی دو لاشیں ریت پہ پڑی تھیں۔ لاش ایک مرد اور ایک عورت کی تھی۔ دونوں کے چہرے ضعیف العمری کا پتہ دے رہے تھے۔ ان کے جسم سے تازہ خون بہہ کر ریت میں جذب ہوتا جا رہا تھا۔ شاید وہ اس عربی کے والدین تھے۔
اچانک اس نوجوان کی آنکھوں میں یاس و حشت کا سایہ صاف نظر آنے لگا۔ ایک خلش پیدا ہوئی جس نے اس کی فکری توانائیوں میں بھونچال سا پیدا کر دیا اور وہ ایک جھٹکے میں کھڑا ہو گیا۔ قدم لڑکھڑائے اور پھر وہ گرتے گرتے بچا، سورج کی تیز شعائیں اس کے جسم میں پیوست ہو رہی تھیں، اس نے بڑی دقتوں سے آنکھوں پر ہاتھ کا سائبان بنا کر چاروں طرف دیکھا۔تاحد نگاہ ایک بھی انسان نظر نہیں آرہا تھا، وہ انسانی درندے جنھوں نے اسے اس حال کو پہنچایا تھا کب کے جا چکے تھے اور وہ اکیلا ان بھیانک چٹانوں کے درمیان زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہو رہا تھا۔ اس کی بے چین گردش کرتی آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ اسے کسی ایسے مسیحا کی تلاش ہے جو اس کی تڑپتی روح اور جھلستے جسم کی دوا کر دے۔
آخر کار وہ فکری توانائیوں کو یکجا کر کے اس کربناک وادی سے باہر نکلا۔ کوئی غائبانہ قوت تھی جو شروع سے ہی اس کی پشت پناہی کر تی چلی آرہی تھی اور اب وہ اس موت کی وادی سے زندہ واپس ہو رہا تھا۔
خون بہت زیادہ بہہ چکا تھااور پھر چلچلاتی دھوپ! ہواؤں سے لہراتے اور ریگزاروں سے ٹھوکر کھاتے وہ دیوانہ وار ایک سمت کو بھاگا جا رہا تھا۔ لیکن کب تک۔۔۔!
زبان سوکھ کر کانٹا ہو گئی تھی اور دم ٹوٹنے ہی والی تھی کہ شہر کی عمارتیں نظر آنے لگیں، کھجور کے باغات سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہواؤں کے لمس نے اس میں ایک نئی روح پھونک دی اور پھر سے اس کی نقاہت آمیز چال میں تیزی آگئی۔
اب وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا، عمارتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے کئی متحیر اور مشکوک نگاہوں نے اس کا تعاقب کیا، علاقہ خطرناک تھا۔ پھر بھی اس نے ہوش و خرد کی قندیل کو بجھنے نہ دیا، تیز قدم مسیحائے وقت کے در کی جانب اٹھتے رہے اور اب دیارِ حبیب نگاہوں کے سامنے تھا، تبھی اس کے قدم گویا زمین میں پیوست ہو گئے، ہزار کوششوں کے باجود اس کے پاؤں آہستگی سے کچھ اٹھنے لگے۔اطراف کا پورا علاقہ نور ونکہت میں ڈوبا ہوا تھا، بھینی بھینی خوشبوؤں سے فضا معطر تھی، یہاں تک پہنچنے کے بعد اسے کچھ طمانیت سی محسوس ہونے لگی۔ بوجھل قدموں سے راحۃ للعاشقین کی بارگاہ میں حاضر ہوا، پیچ و خم میں پڑی نظروں کو جھجھکتے ہوئے جنبش دی۔۔۔اور دل دھک سے رہ گیا! تقدس برساتی آنکھیں انھیں دیکھ رہی تھیں۔۔۔آنکھوں سے آنسوؤں کا طوفان امنڈ پڑا، دل تڑپ اٹھا، چیخ نکل پڑی، بڑی دقتوں سے خود کو سنبھالا، عجب کیفیت طاری تھی۔ اتنے میں انیس الغربین کی زبان مبارک میں حرکت ہوئی اور سماعت افروز آواز کانوں میں پڑی۔
اے عمار! تمھیں کیا ہوا؟ یہ سنتے ہی اس کا ہاتھ جلی ہوئی پیٹھ پر پڑا۔ اب تک خون رس رہا تھا اور ہاتھ اس مقدس ہستی کے سامنے کر دیا۔ پوچھا گیا کہ کیا اس تکلیف کی وجہ سے رو پڑے ہو؟
یہ سنتے ہی ایمانی ولولہ میں روانی آگئی، دل کی دنیا میں طوفان بپا ہو گیا اور حقیقت حال زبان پر آہی گئی۔ تڑپ کر کہہ اٹھے، نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ میرے غمگسار! یہ تکلیف کیا ہے، میرے جسم کا ریشہ ریشہ بھی الگ کر دیا جاتا تو وہ درد اور گراں باری محسوس نہ ہوتی جو ابھی ہو رہی ہے۔ میرے آقا! کفار میرے والدین کو میرے ساتھ زنجیر میں کس کر صحرا کی طرف لے گئے۔ انھوں نے میرے ایمان کے مضبوط قلعے کو مسمار کرنے کا ہر حربہ آزمایا۔ میرے والدین کو صحرا کی تپتی ریت پر گھسیٹ کر نیزے مارا، لیکن یا مراد المشتاقین !میرے والدین ثابت قدم رہے۔ بالآخر انھوں نے جسم کے ناقابل بیان حصے پر نیزے سے وار کی اور میرے والدین اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ’’فداک ابی و امی۔‘‘ اے میرے حبیب! یہ تڑپا دینے والا منظر مجھ پر اثر کر گیا، پھر میرے جسم پر آگ کا گولا ڈالا گیااور سختیوں کے پہاڑ توڑے گئے۔ میں مجبور ہو گیا اور میری زبان ان وحشی درندوں کے کافرانہ کلمات کی مرتکب ہوگئی اور یہی وحشت مجھے کھائی جا رہی ہے۔ میرے سرکار! میں کہیں کا نہ رہا۔تبھی نورانی چہرے کی کیفیت میں تبدیلی نمایاں ہوتی ہے، تقدس برساتی آنکھیں چند لمحوں کے لیے بند ہو جاتی ہے، چہرۂ انور کی تابانیوں سے قرب و جوار کے وجود میں حرارت آگئی، نظریں محوِ نظارہ ہو گئیں، مختصر توقف کے بعد لبوں کی مقدس پتیوں پر کچھ سرسراہٹ نمودار ہوتی ہے اور فرماتے ہیں:مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ۱۰۶(نحل)
یعنی جس کسی کو بھی مجبور کیا گیا کہ کلمۂ کفر کہے اور اس نے کہہ دیا اس حال میں کہ اس کا دل ایمان سے مطمئن تھا تو گویا اس کا ایمان سلامت رہا۔
یہ سنتے ہی اس نوجوان کے وجود میں فوراً ایک معجزاتی تغیر رونما ہوگیا، شگفتگی و شیفتگی کی مستیوں نے اسے مخمور کر دیا اور اب اس کی پیشانی زمین بوس تھی۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں