Hozur Daiye Islam Sheikh Abu Saeed Safwi



حضور داعی اسلام شیخ ابو سعید صفوی دام ظلہ العالی 
وہ جو بولیں تو پھول جھڑتے ہیں - زندگی کے اصول بنتے ہیں 
فرحان احمد مصباحی 
 بات اس وقت کی ہےجب ۲۰۰۴ء میں حضرت داعیِ اسلام شیخ ابو سعید شاہ احسان اللہ محمدی صفوی دام ظلہٗ نے فتح پور ضلع کے ایک قصبہ کھکریرو کا دورہ فرمایا اور اپنے مرید اور میرے استاذ حضرت قاری بشیر القادری علیہ الرحمہ کے یہاں قیام کیا۔ میں وہیں درجۂ حفظ میں زیر تعلیم تھا۔ حضرت سے ملنے کے بعد میں نے وہاں پڑھنے کا ارادہ ترک کردیا۔ میں بہت باشعور نہیں تھا، لیکن نہ جانے ایسا کیوں ہوا کہ اسی وقت حضرت کی خانقاہ میں پڑھنے کے لیے بضد ہوگیا۔میرے استاذ محترم کی سفارش پر آپ نے قبول فرماکر شوال میں خانقاہ عارفیہ آنے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی میری خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بہر کیف میں اسی سال شوال میں خانقاہِ عارفیہ آیا اور جامعہ عارفیہ میں باضابطہ داخلہ لے کر زیر تعلیم ہوگیا۔ حضرت کے سایۂ شفقت ومحبت میں تعلیمی وتربیتی مراحل سے گزرتا ہوا درسِ نظامی کی ابتدائی تین چار جماعتیں مکمل کیں۔ ان چار پانچ سالوں میں مجھ پر حضرت کی بے پناہ الطاف وعنایات اور محبتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر بار، والدین اور خاندان کی محبت دل سے کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ اسی محبت وعنایت کی وجہ سے بہت سارے طلبہ خانقاہ میں ہی تعطیلِ کلاں کے ایام گزارتے تھے اور ان میں سے ایک میں بھی تھا۔ کیوں کہ حضرت کی محبت والدین اور دوسروں کی محبت میں کہیں نہ کہیں حائل ہوجاتی تھی۔حضرت داعیِ اسلام کے شب وروز تو ملی ورفاہی خدمات میں گزرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ خلقِ خدا پر بے حد الفت ومحبت اور بے پناہ شفقتوں کی بارش بھی فرماتے ہیں۔ آپ کی یہی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے بلاتفریق مذہب ومسلک جوشخص آپ سے ایک مرتبہ ملاقات کرلیتا ہے برجستہ کہتا ہے کہ حضرت خلقِ خدا سے بڑی خوش روئی سے ملتے ہیں اور یقینا یہ اکابر صوفیہ کے مظہر ہیں۔ حضرت کی محبت وشفقت کا یہ عالم ہے کہ ہر کس وناکس، امیر وغریب، عالم وجاہل، نیک وبد سب پر اپنی محبت روا رکھتے ہیں۔ گویا ’’اَلْحُبُّ لِلّٰہِ‘‘ کی سچی تصویر ہیں۔اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ ہر شخص یہ کہتا نظر آتا ہے کہ حضرت کی الفت ومحبت، شفقت وعنایت مجھ پر دوسروں سے زیادہ ہے۔
 آپ کی عرفانی وروحانی مجلس میں بیٹھ کر آپ کے علم وفضل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث، فقہ وتصوف، تاریخ وتذکرہ جیسے مختلف علوم پر آپ کی گفتگو سن کر اہل نظر عش عش کرتے نظر آتے ہیں۔ جامعہ عارفیہ کے اساتذہ کے سامنے جب کوئی دشوار کن مسئلہ آتا ہے اور کافی غور وخوض کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے تو اسے آپ کے پاس پیش کرتے ہیں، چند لمحوں میں اس مسئلے کا ایسا حل بتادیتے ہیں جسے سن کر اساتذہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یقین ہی نہیں ہوتا کہ آج جب کہ خانقاہوں سے علم وفضل اٹھ چکا ہے، ایسا بھی کوئی سجادہ نشین ہے جو اپنی گدڑی میں علم وفضل اور تدبیروحکمت کے ہزاروں گہر چھپائے ہوئے ہے۔
 خانقاہِ عارفیہ میں اپنے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک میں نے بے شمار عوام وخواص کو ان کی بارگاہ میں سر تسلیم خم کرتے دیکھا ہے۔ خصوصامختلف مکاتب فکر کے بڑے بڑے دانش وران اور علما کو جنھوں نے اپنے غرور علم وفن کے تاج کو حضرت کے قدموں پر رکھ دیا۔ اس کا راز صرف حضرت کی بے لوث محبت وشفقت ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں پر خلقِ خدا کو حضرت کی طرف سے ملنے والی بے لوث محبت اور لوگوں کا ان کے ساتھ والہانہ عقیدت دیکھ کر دورِ صحابہ کا وہ منظر نگاہوں کے سامنے گرد ش کرنے لگتا ہے جو میں نے تاریخ وسیرت کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جس کے مطالعے کے بعد نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کی والہانہ عقیدت ومحبت کی عظمت وشوکت کا اندازہ لگتا ہے۔لیکن بطورِ تجزیہ میری فہم کی رسائی جہاں تک ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داعیِ اسلام سے اس قدرعشق ومحبت کا جو لوگ مظاہرہ کرتے ہیں اس میں ان کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ یہ داعیِ اسلام کی جانب سے ملنے والی بے لوث محبت وعنایت کا تقاضا ہے اور کچھ بھی نہیں۔

0 Comments

اپنی رائے پیش کریں