آزادی نسواں
مہتاب عالم
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے،جس نے انسان کو ایک ایسی راہ دکھائی ہے کہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر عمل کرے تو اس کی زندگی خوشگوار ہونے کے ساتھ رب قدیر کی خوشنودی کا بھی حقدار بن جائے۔
اسلام میں نہ صرف سماج کے ہر فرد کی حفاظت اور مساوات کا خیال رکھا گیا ہے بلکہ اس کے حقوق کی ادائیگی کی سخت تاکید بھی کی گئی ہے۔ اب چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، آزاد ہوں یا غلام، ہمسایہ ہوں یا رشتے دار، بیوی ہوں یا دوست و احباب، والدین کے حقوق ہوں یا اولاد کے، ان تمام لوگوں کے حقوق کی مکمل تفاصیل قرآن و حدیث میں واضح طور پور موجود ہیں۔
خاص کر عورتوں کے حقوق اور درجہ و رتبہ کے تحفظ کا مساوی طور پر خیال رکھا گیا ہے جس کی مثال دوسرے مذاہب میں نہیں ملتی۔ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کو حقیر اور کمتر سمجھا جاتا تھا،ان کے حقوق کی پامالی کی جاتی تھی، بعثت نبوی سے قبل عورت کی قدر جنسی خواہشات کی تکمیل اور قلبی احساسات کی تسکین سے زیادہ نہ تھی، معاشرے میں وہ صرف مردوں کی خدمت گار ،غلام اور لونڈی کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی تھی۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اگر کسی گھر یا خاندان میں کوئی لڑکی پیدا ہو جاتی تو اس گھر کو معیوب اور منحوس تصور کیا جاتا تھا، بلکہ شرم سے گھر والوں کے سر جھک جاتے تھے، یہی وجہ تھی کہ اس دور میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ در گور کر دیا جاتا تھا، ہرچہار جانب عورتوں کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، مگر وقت نے کروٹ بدلا، اسلام کا سورج طلوع ہوا، کفر و ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے ختم ہو گئے اوراسلام نے معاشرے کو ضلالت و جہالت اور ذلت ورسوائی کی تاریک راہوں سے نکال کر انسانیت کی بلندی پر پہنچا دیا اورعورت کو سماج کی حقیر اور کمتر نظروں سے اٹھا کر ایک ایسے بلند و بالا مقام پر کھڑا کر دیا ،جس کی مثال پوری دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسلام ہی نے عورت کو عفت و عظمت اور شرم و حیا کی پاکیزہ چادر دے کر اس کے وجود کو دوام بخشا۔ عورت کے دامن میں وفا اور محبت کے موتی جڑ کر ایک اچھی شریک حیات کی شکل میں مردوں کو حسین تحفہ پیش کیا اور جب اسلام نے قدرت کے حسین و جمیل شاہکار عورت کو شرم و حیا کی چادر میں لپیٹ کر معاشرے میں بلند و بالا مقام سے سرفراز کیا تو اُنھیں خواتین نے آگے چل کراسلام کے بارے میں اپنے جن جذبات کا اظہار کیا اور اس کی سر بلندی کے لیے جو قربانیاں اور کارہائے نمایاں انجام دیں، اس کی نظیردور دور تک نہیں ملتی۔ ان عورتوں نے نہ صرف اسلام کی سربلندی اور اس کی نشرواشاعت میں نمایاںرول اداکیا بلکہ میدان جنگ میں بھی مختلف طریقوں سے اسلام کے دشمنوں کو ان کی حیثیت اور اوقات بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آج کچھ لوگ جنھیں اسلام کے دشمن عناصر کہیے یا مذاہب کی اساس و تعلیمات سے نا آشنا، علمی بصیرت کی کمی یا ماحول سے ناآشنائی، حالات اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والے غبارہ صفت انسان یا کسی خاص تہذیب و ثقافت کے دلدادہ افراد، مختلف طریقوں سے اسلام کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں اور سب سے زیادہ اس بات پر کیچڑاچھالے جا رہے ہیں کہ اسلام عورتوں کے حقوق کا محافظ نہیں ہے۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق میں مساوات نہیں برتاہے۔ اسلام نے عورتوں کی آزادی کو ختم کر کے انھیں گھر کی چہار دیواری میں قید کر کے رکھ دیا ہے، جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔
میرے ہم وطن خواتین! میں یہ نہیں کہتا کہ اس طرح کی باتیں کہنے یالکھنے والے مغرب زدہ یا مشرق زدہ ہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے اظہار خیالات کی مکمل آزادی ہے اور کوئی شخص کسی کے افکار و خیالات پر پابندی عائد نہیں کر سکتا مگر جب بھی ہم عورتوں کی آزادی سلب کرنے یا قید کرنے، ان کے مابین مساوات نہ کرنے یا ان کے حقوق کے تحفظ نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو ہمیں ضرور مشرق و مغرب کی تہذیب و ثقافت اور اس کے پیروکار کے مابین موازنہ کرنا چاہیے کہ ان کی صورت حال کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سب اسلام کے پیروکار بن جائیں اور اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی گذاریں، بلکہ ہر شخص کو دین و مذہب کو اپنانے نہ اپنانے میں مکمل اختیار دیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن شریف میں موجود ہے:
لَا اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ۔
ترجمہ: دین میں کوئی زور زبردستی نہیں،ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔
ان کا سماجی نظام کتنا مضبوط اور ازدواجی زندگی کتنا خوش گوار ہے؟اس تہذیب و ثقافت کے دلدادے اپنے طریقۂ زندگی سے کتنا خوش ہیں؟یہ سب پرعیاں ہے۔ ہاں! میں اسی سماج کی بات کر رہا ہوں جہاں نوجوان خواتین اور مرد شادی کو زندگی کا جنجال سمجھ کر اس سے اپنا دامن چھڑا تے ہیں اور بے لگام جنسی رشتوں کی تلاش میں سر گرداں رہنے کو ماڈرن اور مہذب ہونے کی علامت تصور کرتے ہیں، عورتیں ماں بننے سے احتراز کرتی ہیں اور آج یہ نوبت آگئی ہے کہ بچے بچیاں ماں باپ کی محبت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر شادی شدہ ماؤں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور ناجائز بچوں کی تعداد میں روز بروزاضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خاندانی اتحاد اور سکون غارت ہوتا جا رہا ہے، ازدواجی زندگی کا نام و نشان مٹتا جا رہا ہے اور یہ اس لیے ہو رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق، ان کی آزادی، ان کا تحفظ قانون فطرت اور تقاضۂ وقت کے خلاف دیا جا رہا ہے۔ جنسی بے راہ روی کے لیے جنسی مساوات، آزادی تحفظ اور انسانی حقوق جیسے خوبصورت ناموں کے سہارے مضبوط سماجی نظام کا خون کیا جا رہا ہے اور خوشحال ازدواجی زندگی کوپامال کیا جا رہا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے عورتوں کے مطالبات کے مطابق ان کو جنسی مساوات، آزادی، تحفظ اور دیگر انسانی حقوق سب کے سب ان کے ہاتھوں میں دے دیں مگر اس کا نتیجہ کیا ہوگا، کیا آپ نے کبھی اس کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے۔اس کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں کبھی کچھ سوچا ہے؟ ایسے بھی اس سے حاصل ہونے والے نتائج سے ہما شما نا واقف نہیں ہیں۔ البتہ اس سے حاصل ہونے والے نتیجے سے ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والے نام نہاد افراد کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن اگر جس کے اندر ذرا سا بھی احساس ہوگا، انسانی رشتوں کی قدر اور بچے بچیوں کی اپنائیت کا شعور ہوگا تو وہ ضرور ان نتیجوں کو سن کر، یا دیکھ کر احساس ندامت سے سر جھکا لیں گے۔ ایک غیرت مند شخص جو انسانی رشتوں کا پاسدار ہے،اپنے بیوی بچوں پر جان نچھاور کرنے والا ہے، وہ کبھی کسی قیمت پر بھی ان چیزوں کو برداشت نہیں کرے گا۔
محترم خواتین: اگر اتنا کہنے سننے کے بعد بھی آپ پر کوئی فرق نہیں پڑتا،آپ کوفرسودہ مساوات ہی چاہیے، آپ کو دکھاوے کی آزادی پسند ہے، آپ کو مردوں کی برتری اور حاکمیت پسند نہیں ہے تو خود اپنی حاکمیت، اپنی آزادی، اپنا حق اور اپنے تحفظ کی ذمے داری اپنے ہاتھوں میں لے لیجیے، آپ خود ہوش مند ہیں، اپنے بھلے برے کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں، لیکن یہ یاد رہے کہ اسلام نے اگرمردوں کو حاکم، عورتوں کو شیشہ صفت اور نازک اندام کہاہے تو اس میں ضرور کوئی نہ کوئی حکمت اور مصلحت ہے۔ بہر حال! اگر آپ کو آزادی، بے راہ روی اور جنسی تسکین ہی پسند ہے تو جائیں بلا شبہ اپنی آزادی سے لطف اندوز ہوں۔ نت نئے طریقے سے جنسی تسکین کریں کوئی نہیں روکتا، لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ جب تک ہو ش آئے ، سب کچھ لٹ چکا ہو، جوانی کا نشیمن خاکستر ہو جائے اور آزادی قید کے دروازے پر دستک دے رہی ہو۔ پھر اس وقت افسوس اور درد بھری یادوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا،کیونکہ فطرت کے منافی کاموں کا نتیجہ تو افسوس ناک ہی ہوتا ہے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں