Ilm e Meeras

google.com, pub-3332885674563366, DIRECT, f08c47fec0942fa0

علم میراث
 سعود عالم

اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی شکل میں ایک بہترین قانون زندگی دی ہے جس کواگر ایمانداری اورسچائی کے ساتھ اپنا لیا جائے تویقینا دین ودنیا میں کامیابی وکامرانی حاصل ہوگی، قانون میراث بھی دین کے اہم قوانین میں سے ایک ہے۔
 میراث:
فقہ ا ور حساب کے اُن قواعد کے علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعے میت کا ترکہ اس کے شرعی وارثوں کے درمیان تقسیم کرنے کاطریقہ معلوم ہو ۔
علم میراث کا سیکھنا فرض کفایہ ہے ،یعنی ہر زمانہ اور ہرحلقے میں اتنے لوگوں پر اس کا سیکھنا ضروری ہے جس سے امت کی شرعی ضرورت پوری ہوجائے ۔
علم میراث کا تعلق فقہ سے ہے جو علم فقہ کا ایک روشن باب ہے، لیکن اپنی اہمیت و فضیلت کی بنا پر اس علم نے ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔
اسلام نے علم میراث حاصل کرنے پر بڑا زور دیاہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
علم میراث سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھائو یقینا میں دنیا سے اٹھا لیا جاؤں گا اور یہ علم بھی عنقریب اٹھا لیا جائے گا ، میرے بعد فتنے ظاہر ہوں گے،یہاں تک کہ دوشخص کے درمیان اختلاف ہوگا تو وہ کسی ایسے شخص کونہ پائیں گے جو اُن کے درمیان فیصلہ کرے ۔(سنن نسائی کبری، ج:۴،ص: ۶۳)
آج اس کے اثرات بھی رونما ہونے لگے ہیں ۔بیشتر مدارس میں اس فن میں صرف ایک کتاب ’’سراجی ‘‘داخل نصاب ہے جو’ فن میراث‘ کا مجموعہ ہے ،لیکن اکثر درسگاہوں میں پوری کتاب پڑھائی نہیں جاتی اور اگر کسی نے پڑھابھی تو فرد فرید کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے اس کے مضامین ذہن میں نہیں رہ پاتے ۔
قرآن کریم میں میراث سے متعلق آیتوں میں جس تفصیل سے میت کے وارثوں کے حالات بیان کئے گئے ہیں اس کی مثال دیگر مذاہب میں نہیں ملتی ،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : 
’’ لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء  نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُون۔‘‘(نسا:۱۳)
ترجمہ : مردوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت دار اور عورتوں کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑ گئے ماں باپ اور قرابت دار ۔
اس آیت میں اللہ نے اجمالی طور پر وراثت کے احکام بیان فرمائے ہیںخواہ مال کم ہویا زیادہ، یہ اللہ کی جانب سے مقرر کیا ہوا حصہ ہے ۔
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ اوس بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی اور پسماندگان میں انھوں نے ایک بیوی اور تین لڑکیاں چھوڑیں،پھر اوس بن ثابت یعنی میت کے دو چچا زاد بھائی اٹھے اور تمام مال پر قبضہ کر لیا ۔میت کے ترکے میں سے نہ بیوی کو کچھ دیا اور نہ لڑکیوں کو کچھ دیا ،چونکہ زمانہ ٔجاہلیت میںنہ عورتوں کو میراث سے کچھ دیا جاتاتھا اور نہ ہی لڑکیوں کو ،اُن لوگوں نے یہ اصول بنالیا تھا کہ میراث کے مستحق صرف وہ ہوں گے جو گھوڑے پر سوار ہو ںاور دشمنوں کا مقابلہ کر کے مال غنیمت جمع کرسکیں۔
چنانچہ اُن کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اورعرض کرنے لگیں :’’یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ان لڑکیوں کی پرورش کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کے مرنے والے باپ نے کافی مال چھوڑا، اور سارامال چچازاد بھائیوں نے لے لیا اور ہم لوگوں کو کچھ نہیں دیا ،اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر حکم خداوندی سنایا کہ وراثت اور ترکہ صرف مردوں اور لڑنے والے بہادروں کے لیے نہیں، اس میں میت کے سارے وارثین شریک ہوں گے خواہ مرد ہوں یا عورت ۔
مزید اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَرَسُولَہُ یُدْخِلْہُ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ وَمَن یَعْصِ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَتَعَدَّ حُدُودَہُ یُدْخِلْہُ نَاراً خَالِداً فِیْہَا وَلَہُ عَذَابٌ مُّہِیْن۔‘‘(نسا ،:۱۳،۱۴)
ترجمہ :یہ اللہ کی حدیں ہیں جو حکم مانے اللہ ورسول کا، اللہ اسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ہمیشہ اُن میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اس کی حدود سے بڑھ جائے اسے اللہ آگ میں داخل کرے گا جس میں ہمیشہ رہے گا اوراس کے لیے خواری کا عذاب ہے ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جو شخص اپنے وارث کی میراث سے بھاگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث کو منقطع کردے گا۔ ( ابن ماجہ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرائض اہل فرائض کو ادا کرو۔ (بخاری،باب میراث الولد )
ان باتوں سے یقینا میراث کی فضیلت اور اہمیت کا اندازہ لگانے میں کسی کو کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے، لیکن کیا اس کے باجود بھی آج مسلمان اپنے وارثین کے حقوق کی ادائیگی میں حساس ہیں ،کیا حقدار کو اُن کاپورا پورا حق دے رہے ہیں ؟
 اگر آپ گہرائی سے مسلم معاشرے کا جائزہ لیں گے تو آپ کو بہت ایسے پڑھے لکھے لوگ مل جائیں گے جنھوں نے قرابت داروں کا حق مارا ہے ۔انھیں یہ جان لینا چاہیے کہ وراثت کے حقوق من جانب اللہ مقرر ہوتے ہیں جو اس وقت تک معاف نہیں ہوتا جب تک کہ حقدار اپنا حق معاف نہ کردے ،لیکن ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ لوگ اپنی بہنوں اورقرابت داروںسے زور زبردستی سے وراثتی حقوق معاف کراتے ہیں جو اسلامی قانون کے سراسر خلاف ہے ۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ: حق میراث حکم شرع ہے کہ رب العالمین نے مقرر فرمایا ،کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہو سکتا ۔  (فتاویٰ رضویہ ،ج :۲۶،ص:۱۳۳)
اور صفحہ نمبر ۳۴۴ پر فرماتے ہیں :
الاِرْثُ جَبْرِی لایَسْقُطُ بِالْاِ سْقَاطِ۔‘‘
یعنی وراثت ایک جبری امر ہے جو ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوتا ۔  


0 تبصرے

اپنی رائے پیش کریں