اعداد کے تعین کا مسئلہ

Alehsan Media
0
اَعداد از روئے لغت صریح اور متعین ہوتے ہیں۔ جب ہم تین کا لفظ بولتے ہیں تو اس کے معنی تین ہی ہوں گے، دو یا چار نہیں ہو سکتے۔ لیکن از روئے عرف و استعمال عدد ہمیشہ متعین نہیں ہوتے۔ معدود میں اگر عدد اور تعدد قبول کرنے کی صلاحیت ہو تب تو عدد کے معانی متعین ہوں گے اور اگر اس کے اندر سرے سے تعدد کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو، تو وہاں عدد کے معانی متعین نہیں ہوں گے، بلکہ وہاں عدد کا ذکر محض تاکید اور زور بیان کے لیے ہوگا۔
مثال کے طور پر اسے یوں سمجھیں کہ اگر کوئی کہے کہ میں تم کو دس لاٹھی ماروں گا۔ یہاں لاٹھی مارنے کے اندر تعدد کو قبول کرنے کی صلاحیت موجودہے، لہٰذا یہاں دس کا معنی متعین ہوگا اور اگر کوئی کہے کہ میں تمہیں دس موت ماروں گا۔ تو موت چوں کہ ایک عدمی شے ہے، اس میں تعدد قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، لہٰذا یہاں ایک بار مارنا ہی مراد ہوگا، باقی اعداد؛ شدت بیان اور جوش غضب کے اظہار کے لیے ہوں گے ۔
ان دونوں صورتوں کے علاوہ عدد کے اندر ایک تیسری صورت بھی ہوتی ہے کہ معدود کے اندر عدد کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں عرفاً اس عدد کا متعین معنی مراد نہیں ہوتا، بلکہ محض کثرت مراد ہوتی ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ میں نے تجھے پچاس بار سمجھایا۔ میں نے تم کو سیکڑوں بار فون کیا۔ ایسے مقامات پر اگر چہ معدود کے اندر اس عدد کے متعین معنی مراد ہونے کی صلاحیت ہے ، لیکن عرفاً وہ متعین عدد مراد نہیں لیا جاتا۔

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !