Zaad e Raah

Alehsan Media
0

زاد راہ 


 مولانا حسن سعید صفوی 


 باسمہٖ تعالیٰ جل مجدہٗ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا عرصے سے نظروں کو ’’مجددِ قرنِ عاشر، حافظِ حدودِ شریعت وآدابِ طریقت‘‘ کی اس تحریر کی تلاش تھی جسے اکابرین کی تعریف وتوصیف اور ان کا اعتماد حاصل تھا، لیکن کبریت احمر جلد کب ہاتھ آتا اور جب پردۂ تقدیر سے وہ نمودار ہوا تو ایسا معلوم ہوا کہ ’’یار در خانہ ومن گرد جہاں می گردم‘‘ کا معاملہ ہوا۔ 
 للہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر می خواست
 آخر آمد زپس پردۂ تقدیر پدید 
اب اس کے ترجمے کا انتظار ہونے لگا اور یہ انتظار شدید سے شدید تر ہوتا گیا، حتی کہ ’’یارانِ وفا شعار‘‘ کو شک وتردد کا سامنا ہوا کہ کہیں یہ ’’دشمن کی اڑائی ہوئی بات‘‘ تو نہیں !! لیکن شاید کاتبِ تقدیر کو اس مدت کو طویل کرنے سے اور ہی کچھ منظور تھا اور ایسا کچھ ہوا کہ قصد وارادے کے بغیر اس ترجمے کی پیش کش تاریخی ہوگئی۔ وہ اس طرح کہ صاحبِ کتاب کی وفات ۱۵۱۶ء میں ہوئی اور یہ کتاب ۲۰۱۶ء میں رو پذیر ہوئی۔ اس طرح پانچ صدیاں مکمل ہو گئیں گویا کہ ایک صدی کا کام ایک سال کے عرصے میں مکمل کیا گیا اور کتاب مستطاب کی تقریبِ رونمائی آپ کے دیار میں آپ ہی کی بارگاہ میں رونق پذیر ہوئی۔
 حضرت پیر ومرشدگرامی کو جو تعلق خاطر کتاب اور صاحب کتاب سے ہے اس کی ایک جھلک آپ کے اس کلام سے ظاہر ہےجو حضرت وارث الانبیاء والمرسلین قدس سرہ کی شان میں ہے۔جس کا مطلع ہے:
 مراد قلب ہر مرید شیخ سعد شیخ سعد
 سکون وراحتِ مزید شیخ سعد شیخ سعد
 اورمقطع ہے: 
اگر ہے مجمع السلوک کسی کی ذات بے شکوک
 تو بس فقط ابو سعید شیخ سعد شیخ سعد
مقطع میں جس خوبی سے کتاب اور صاحب کتاب کی عظمتوں کا اعتراف کیا گیا ہے وہ اہل نظر پر پوشیدہ نہیں۔اس عظیم الشان کتاب کی اشاعت آپ کے اس خواب کی تعبیر ہے جو کتاب کی دستیابی سے سالوں قبل آپ نے رمزو کنایہ میں بیان فرمایاتھا۔
 ویسے تو جملہ محبانِ صوفیہ کوبے پناہ مسرت و شادمانی ہوئی لیکن ان لوگوں کی کیفیت کا صحیح اندازہ لگانا دشوار ہوگا، جنھوں نے مسلسل ۵؍۶ سال اس کتاب کے ساتھ گزارے۔ ترجمہ کیا، ترجمے کا اصل سے مقابلہ کیا، افادات لکھے اور تخریج وتحقیق وغیرہ کے تمام مراحل سے گزارا اور اس کام میں شب وروز ایک کیے۔ مولیٰ تعالیٰ ان مساعیِ جمیلہ کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور مزید کی توفیق عطا فرمائے۔
 زیرِ نظر رسالہ انھیں اہلِ دل کے جذبات دروں کی عکاسی ہے، جسے برادرم مولانا ذیشان احمد مصباحی حفظہ اللہ نے اپنے جادو نگار قلم سے سپردِ قرطاس کیاہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ لہٰذا اس پر مزید کچھ کہنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مثل سمجھتا ہوں۔
 وارث الانبیاء والمرسلین مخدوم شیخ سعد الدین خیرآبادی قدس اللہ روحہٗ کے عرس مبارک میں خصوصی حاضری ،مجمع السلوک شریف کی رونمائی اور دیگر کوائف و حالات کو آپ نے جس خوبی سے قلم بند کیا وہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔یہ تحریر جب حضرت پیر و مرشد گرامی مد ظلہ العالی کی نظر سے گزری تو آپ نے اس قدر تحسین فرمائی کہ اسے مستقل ایک رسالہ کی شکل دینے کا حکم صادر فرمایا اور اس بے مایہ کو اس پر چند سطریں تحریر کرنے کا بھی حکم ہوا۔چنانچہ حسب حکم اب یہ رسالہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
مزید دو تحریریں اس فقیر نے اس میں شامل کرنے کی گذارش کی ۔ایک تو حضرت پیر و مرشد کے محبوب و مسترشد خاص حضرت شاہ محبوب اللہ بقائی صاحب (نبیرہ حضرت مولانا شاہ بقاء اللہ صفی پوری رحمہ اللہ تعالیٰ) اور دوسری برادر طریقت، پیر و مرشد کے جاں نثار مولانا محمدمدبر سعیدی کی۔ اس کے ساتھ ہی ناظرین کی ضیافتِ طبع کے لیے ان متبرک ویادگار لمحات کے وہ مناظر بھی جنھیں کیمرے کی نظروں نے قید کرلیا تھا ، شاملِ کتاب ہیں۔ امید ہے کہ اسے بھی قبولیت کی نظروں سے دیکھا جائے گا۔ 
 حق تبارک و تعالیٰ ہمیں مزید کار خیر کی توفیق عطا فرمائے، انہیں شرف قبولیت سے نوازے اور حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے۔
 آمین بجاہ سید الاولین والآخرین علیہ أفضل الصلاۃ وأکمل التسلیم!
 فقیر ابو سعد حسن الصفوی غفرلہ
 ۲۸؍ربیع الاول ۱۴۳۸ھ

Post a Comment

0Comments

اپنی رائے پیش کریں

Post a Comment (0)

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Check Now
Accept !