جامعہ عارفیہ کے بڑھتے قدم
پے درپےعلمی و تحقیقی اشاعتوں کے بعد’’ الاحسان عربی:۳‘‘ کی اشاعت یقینا حیرت انگیز ہے!
جامعہ عارفیہ ،سید سراواں الٰہ بادکا قیام اگرچہ ۱۹۹۳ءمیں ہوا تھا اور اس میں علمی انقلاب کا آغاز ۲۰۰۴ سے ہوا، لیکن اہل علم کے کانوں میں باضابطہ طور پر اس کی سرگرمیوں کی گونج۱۱۔ ۲۰۱۰ ء سے پڑنی شروع ہوئی جب سے سالنامہ مجلہ الاحسان اردوکی اشاعت کا آغاز ہوا۔اس رسالے نے جہاں علمی حلقے کو اپنا دیوانہ بنادیا وہیں جامعہ عارفیہ نے اہل علم کو تیزی کے ساتھ اپنی جانب رخ کرنے پر مجبور کردیا۔آج حالت یہ ہے کہ ملک کا سنجیدہ اور سوچنے سمجھنے والا اہل علم طبقہ اس ادارے سے منسلک ہونے میں نہ صرف فخر محسوس کرتا ہے بلکہ اس سے جڑ کر دین و سنیت اور بزرگوں کی تعلیمات پر خود عمل کرنے کے ساتھ دوسروں تک سنجیدہ انداز میں پہنچابھی رہے ہیں۔
سالنامہ الاحسان اردو نے ہندوپاک میں جو مقام بنایا ہے وہ تاریخ ساز ہے اور اس کی شہرت اور اہمیت نےہندوستان کے سب سےپپولر رسالوں کو مات دے دی ہے۔اہل علم اس کے منتظر رہتے ہیں۔کالج کے اسکالرز اور پروفیسر حضرات کو اس کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے،خود ناچیز کے پاس کئی بار کال آتے ہیں کہ الاحسان کا اگلا شمارہ شائع ہوا کہ نہیں؟الاحسان اردو کی شہرت کی وجہ اور اس کی سب سے اہم خصوصیت ناچیز کی نظر میں یہ ہے کہ اس مجلے نے نہ صرف تصوف کو علمی و فنی حیثیت سے متعارف کرایا بلکہ مخالفین اور ناقدین تصوف کی نقد و تنقید کو کھلے دل سے قبول کیا ہے اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ جس نے محبین تصوف کے ساتھ مخالفین تصوف کو بھی آنکھیں کھولنے پر مجبور کردیا ہے۔ مثال کے طور ۲۰۱۷ کے تازہ شمارے کو دیکھا جاسکتا ہے۔
جامعہ عارفیہ نے فروری ۲۰۱۲ءسے ماہنامہ خضر راہ کی اشاعت کا آغاز کیا جس نے بہت کم مدت میں ماہناموں کی بھیڑ میں اپنی پہنچان بنائی اور درجنوں گم گشتگانِ راہ کے لیے واقعی خضر راہ ثابت ہوا۔درمیان میں وقتا فوقتا سلسلے کی تاریخ و منہج پر مشتمل متعدد کتابیں منظر عام پر آئیں۔لیکن پچھلے چند مہینوں سے جس قدر تیزی کے ساتھ اس جامعہ کے شعبہ نشر و اشاعت شاہ صفی اکیڈمی کی جانب سے قیمتی سرمائے اور علمی و تحقیقی ذخیرے سامنے آرہے ہیں اس نے تعجب میں ڈال دیا ہے۔ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۶ کو مجمع السلوک کی اشاعت ہوتی ہے جس پر اس اکیڈمی کی پوری ٹیم نے مل کرمسلسل پانچ چھ سال تک ترجمہ، ایڈیٹنگ، تحقیق،تخریج اور تسہیل کا کام کیا اور ایک ایسا علمی،تحقیقی اور روحانی ذخیرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جسے صدیوں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مجمع السلوک کی اشاعت ایسا کارنامہ ہے کہ چھٹی صدی میں امام غزالی کی کتاب مستطاب احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت اور دسویں صدی میں امام شعرانی کی میزان الشریعۃ الکبریٰ کے بعد پہلی بار اسی پائے کی کوئی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے۔گویا تقریبا چار پانچ صدیوں تک تصوف میں اس پائے کا کوئی کام نہیں ہوا اور ایسے عظیم کارنامے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کا سہرا جامعہ عارفیہ اور اس کے بانی کو جاتا ہے۔اس کے لیے جامعہ کی ٹیم اور بانی جامعہ یقیناًمبارک بادی کے مستحق ہیں۔ابھی لوگ اس کی چاشنی کو بھول بھی نہ پائے تھے کہ ۱۹؍ فروری ۲۰۱۷ ءکو سالنامہ الاحسان اردوکا شمارہ:۷ اپنی سابقہ آب و تاب کے ساتھ شائع ہوگیا جس نے اہل علم کی آنکھوں کو خیرہ کردیا اور اب بالکل ہی اچانک الاحسان عربی شمارہ:۳ آگیا۔ جس سے اپنے پرائے سب انگشت بدنداں ہیں کہ آخر یہ علمی ٹیم انسانوں کی ٹیم ہے یا کوئی جناتی اور آسمانی مخلوق!الاحسان اردو کے لیے تو جنوری ہی سے اعلان شروع ہوچکا تھا ،لیکن الاحسان عربی کے تعلق سے اس جامعہ کے قریبی احباب کو بھی بھنک تک نہیں لگی اور کتاب تیار!کہا جاتاہے کہ کام اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیابی شور مچادے۔ آج جامعہ عارفیہ نے اسے عملی شکل دے دی ہے۔
یہ جامعہ جس تیزی کے ساتھ اپنی ترقی کی راہیں طے کررہا ہے وہ یقینا حیرت انگیز بھی ہے اور خوش آئند بھی لیکن ساتھ ہی ہندوستان میں جماعت اہل سنت کی تاریخ اور قدیم روش و روایت کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ بھی ہے کہ کہیں یہ اپنی ترقی کی تیزی کی وجہ سے محسود نہ بن جائے اور اس کے حاسدین میں اضافہ نہ ہوجائے۔کیوں کہ ہم دیکھ رہے کہ ہیں کہ جامعہ عارفیہ علمی فکری تحقیقی پیش قدمی کے تعلیمی اعتبار سے بھی ترقی کررہا ہے اور یہ گوشہ بھی تعجب میں ڈالنے والا ہے۔۲۰۱۰ تک جس ادارے میں مشکل سے سو ڈیڑھ سو طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے آج چند سالوں میں۷۰۰ سے زائد طلبہ طلب علم کے ساتھ اپنی تربیت میں مصروف ہیں۔جب کہ جامعہ کا موجودہ تدریسی عملہ ۵۰؍ کے قریب مخلص، باصلاحیت ،باتربیت اور صاحبانِ حال و قال نفوس پر مشتمل ہے۔یہاں کے طلبہ کی علمی قابلیت و صلاحیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب تک یہاں فضیلت کی تعلیم نہیں ہوتی تھی تو یہاں سے عالمیت کے بعد طلبہ یاتو ازہر ہند جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخل ہوتے تھے جا جامع ازہر مصر میں۔ پھر شمالی ہندوستان میں جامعہ عارفیہ وہ اولین سنی مدرسہ ہے جس میں جامع ازہر نے مصر سے اپنا استاذ فراہم کیا۔ساتھ ہی یہاں کے نصاب کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں علوم اسلامیہ کے ساتھ علوم عصریہ کے سارے مضامین داخل ہیں جو شاید ہندوستان بھر میں اس قسم کا انقلاب برپا کرنے والا پہلا ادارہ ہے۔ساتھ ہی اس کی تعمیری ترقی بھی نظروں سے پوشیدہ نہیں۔چند سالوں میں عظیم الشان پرشکوہ مسجد کا دعوت نظارہ دینا، پانچ منزلہ شاہ مینا ہاسٹل کی عمارت نیز اس کے بغل میں ایک دوسرے ہاسٹل کی سنگ بنیاد رکھاجانا یقینا یہ سب جادوئی اور حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے بالخصوص ان لوگوں کے لیے مزید حیرت کا باعث ہے جو جامعہ کی بے سرو سامانی اور وسائل کی کمی کے بارے میں اندرون تک اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ایسے حالات میں ہندوستان کے دیگر اداروں کے ایمان و تقوی اور بالخصوص توکل علی اللہ کے امتحان کا وقت ہے کہ وہ جامعہ عارفیہ کےبڑھتے قدم کی وجہ سےکہیں منفی طرز عمل کا شکار نہ ہوجائیں۔ آخر میں اس حقیقت کا اعتراف لازمی ہے کہ اس جامعہ کو ترقی کے اس مرحلے تک پہنچانے میں جہاں اس کے بانی اور جامعہ کی بے لوث ٹیم کا ہاتھ ہے وہیں اس کے حاسدین اور معاندین کا بھی بھر پور تعاون رہا ہے جنہوں نے شب و روز اپنا پلیٹ فارم، اپنا پیسہ ،اپنی انرجی اور اپنی طاقت و وقت لگاکر اس جامعہ کی پبلسٹی (Publicity)کی،اگرچہ منفی ہی سہی لیکن نتیجہ تو مثبت ہے اس لیے ہم ان تمام احباب کے شکر گذار ہیں اور اہل جامعہ عارفیہ سے ہماری گذارش ہے کہ انہیں بھی مشکور ہونا چاہیے۔اللہ تعالی بزرگان دین اور صوفیائے کرام کے اس حقیقی چمن کو شاد و آباد رکھے اور حاسدین و معاندین کے حسد و عناد سے محفوظ رکھے۔
ناظم اشرف مصباحی
5 مارچ 2017
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں