ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں داخلہ سے قبل ممبئی میں درجہ رابعہ تک پڑھ چکا تھا، لیکن درسی کتابیں از خود حل کرنے سے قاصر تھا، نیز وہ علمی اطمینان نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا ۔ ہر روز ایک تشنگی محسوس کرتا، جس کو دور کرنے کے لیے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا۔ یہاں درسگاہ سے وہ تعلق نہ رہا جو اس سے پہلے رہتا تھا جس کی وجہ سے امتحان کے لیے خود ہی کتابیں حل کرنے پر مجبور ہوا۔ اس سے درسی اور غیردرسی علوم و فنون کی کتابیں سمجھنے کے لیے ایک قسم کی خود اعتمادی پیدا ہوئی جو خوشگوار احساس تھا۔ جامعہ اشرفیہ ہی میں قلم کے استعمال، تحریر کے نوک و پلک درست کرنے کا سلیقہ آیا اور سب سے اہم یہ کہ شخصیات پر دلائل کی بالادستی کو تسلیم کیا ،ساتھ ہی دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھنے اور کسی بھی جگہ بلاخوف و خطر اپنی بات کہنے کا حوصلہ ملا، باغ فردوس،دیار حافظ ملت نے چار سال میں میری شخصیت ہی بدل کر رکھ دی اور اشرفیہ سے ایک جذباتی لگاؤ پیدا ہوگیا جو آج بھی اسی شدت کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔
اشرفیہ کے بعد بڑی مشکل سے اور بادل ناخواستہ ایک سال ’’جامعہ عارفیہ الہ ٰباد‘‘ میں ایک سالہ ڈپلومہ کے لیے نکالا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ ایک سال نہ دیتا تو میری پچھلی گیارہ سالہ محنت بے معنی رہ جاتی۔ اشرفیہ سے فضیلت مکمل کرنے کے باوجود عربی کتابیں پڑھنے یا عربی گفتگو کی عادت نہیں تھی بلکہ اپنا سارا کام اردو کتابوں کے ذریعے نکالتا تھا۔ جامعہ عارفیہ میں ایڈمیشن کے بعد مختلف موضوعات پر ایک دن میں دو دو، ڈھائی ڈھائی سو صفحات مطالعہ کروائے جاتے جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ عربی کی وحشت دور ہوئی۔ نیز ازہر شریف سے بھیجے گئے استاذ حضرت عبداللطیف خلف عبد اللطیف فرغلی صاحب سے گفتگو شروع ہوئی اور ان کی خدمت کی وجہ سے عربی بول چال بہ کثرت ہونے لگی، جس کی بنا پر بالآخر اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا اہل ہوگیا۔ مولانا ضیاء الرحمن علیمی اور ماسٹر ندیم صاحب کی کاوشوں سے انگریزی کی بھی پالش ہوئی، یہیں پر انگریزی کتابیں اور ناولز پڑھنے کا رجحان پروان چڑھا، آج حال یہ ہے کہ چیتن بھگت اور سودھا مورتی میرے فیوریٹ رائٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ اور تصوف کے موضوعات کی ایک نئے ڈھنگ سے تدریس نے ان علوم و فنون کی طرف دل چسپی بڑھادی۔ علم حدیث میں علمی و عملی تخریج، جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کے مباحث پر ایک گونا دسترس ہونے کا یقین ہونے لگا، اس سے پہلے صرف ’’نزہۃ النظر‘‘ کتاب پڑھ چکا تھا، یہاں بنیادی اصطلاحات کی تعلیم کےساتھ علوم حدیث کی دیگر شاخوں کی تفصیلی دروس نے اس میدان میں خود اعتمادی پیدا کردی۔ مجھے سب سے زیادہ دل چسپی فقہ اور اصول فقہ سے تھی، یہاں مولانا ذیشان احمد مصباحی صاحب نے اس کو اور دوبالا کردیا۔ ابتدا میں مفتی علی جمعہ مصر کی کتاب’’ المدخل الی دراسۃ المذاہب الفقہیۃ‘‘سے فقہ اربعہ کا بھرپور تعارف اور ان کی خصوصیات جان کر افسوس ہونے لگا کہ یہ کتاب پہلے ہاتھ کیوں نہیں لگی؟ اس کتاب سے مختلف محاضرات کے ذریعے اب تک کی پڑھی ہوئی کتابوں سے کسی مسئلے کے استنباط کے لیے جزئیات نکالنے اور اصول و ضوابط کو استعمال کرنے کے طریقے کا علم ہوا۔ آخری دو وحدے میں مختلف موضوعات پر فقہی بحث و مباحثہ نے تو اس فن سے جنون کی حد تک لگاؤ پیدا کردیا۔ مختلف فیہ اور جدید مسائل کو حل کرنے کے لیے بحث و مباحثہ کروائے گئے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ ایک ہفتے تک ایک موضوع دیا جاتا۔ تمام طلبہ اس پر مطالعہ کرتے اور ایک طالب علم اس موضوع پر مقالہ تحریر کرتا اور ہفتے کے آخر میں سیمینار کی طرح اسے پڑھ کر سنایا جاتا، دیگر ہم درس طلبہ کاپی قلم لے کر اپنے مطالعہ کی روشنی میں مقالہ پڑھنے والے کی بات نقل کرتے اور اس موضوع پر ہرطرح کے اعتراضات اور کراس اگزامنیشن کرتے اور مقالہ پڑھنے والا اس کا جواب دیتا۔ استاد گرامی مولانا ذیشان صاحب بیچ بیچ میں رہنمائی کرتے رہتے، جہاں غلطی ہوتی وہاں اصلاح فرماتے، جہاں زیادتی ہوتی وہاں تنبیہ کرتے اور اس طرح کئی مسئلے میں بھرپور مطالعہ و تحقیق کے ساتھ مکالمہ اور ٹیبل ٹاک کی بھی پریکٹس ہوتی گئی۔مذاہب عالم کا مطالعہ اور مناہج تفسیر کی معرفت بھی ہوئی۔ ان سب سے بڑھ کر حضور داعی اسلام مدظلہ کی مجلسوں نے علمی و فکری طور پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ان کی مجلسوں میں ناچیز کا اپنے سڈول چہرے اور صاف و شفاف لباس کے پیچھے چھپے ایک خطا کار اور سیہ کار سے بھی تعارف ہوا اور جب بھی حضرت داعی اسلام کا سامنا کرتا اس گندے، بد اخلاق، بد تمیز اور بے عمل ناظم کو صاف اور شدت کے ساتھ محسوس کرتا، آہستہ آہستہ اس سے نفرت سی ہونے لگی۔ حضرت داعی اسلام سے ان کیفیات کا ذکر کیا۔ انہوں نے طریقہ بتایا اور آہستہ آہستہ ناظم بدلتا گیا، فکر بدلی، رویہ بدلا، مزاج چینج ہوا، عمل میں تبدیلی آئی، شاعری چھوٹی، مصنف بننے اور چھپنے کا شوق ختم ہوا اور دیکھتے دیکھتے سب کچھ بدل گیا۔ نمازوں میں لذت ملنے لگی، شیخ کے تصرفات کو بہت قریب سے محسوس کیا اور بہت کچھ، جنہیں الفاظ کی شکل دینا مناسب نہیں۔ لوگ سیرت رسول کا مطالعہ کرتے ہیں میں نے بھی کیا ہے لیکن میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے سیرت رسول کے اکثر پہلووں کو دیکھا بھی ہے۔ سوچتا ہوں اگر ’’الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ‘‘ میں ایڈمیشن نہ لیتا تو شاید کبھی بھی اس شخص کو پہچان نہ پاتا؛ کیوں کہ حضور داعی اسلام جلدی کسی پر کھلتے نہیں، ہر کسی سے اس کی وسعت ظرف کے مطابق ہی معاملہ فرماتے ہیں؛ اس لیے ہر کوئی انہیں اپنا غم خوار سمجھتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ فضیلت کے بعد یہ ایک سالہ کورس طلبہ میں بڑی تیزی کے ساتھ زبردست نکھار لاتا ہے، انہیں ہر طرح سے تراش کر قیمتی موتی بنادیتا ہے۔ ہر دن ایک نیا تجربہ، ایک نئی بات، نئے طریقے سے، نئی شان سے فکر و نظر کے نئے زاویے کھلتے ہیں، اس لیے بعد فضیلت اپنی آئندہ زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے یہ ایک سال بڑی اہمیت کا حامل ہے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں