جدید علمی ، فکری اور دعوتی جہات کی رہ نمائی
’’الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ‘‘ اسم با مسمّٰی ہے۔ جو علمی،عملی اور تحقیقی میدان میں فارغین مدارس کی ذہنی اور فکری صلاحیتوں کو اجاگر کر کے ان کے لیے روشن مستقبل کی نئی جہت کی تعیین بآسانی فراہم کرتا ہے۔ یہ کورس حقیقی معنوں میں علمی و عملی گنگا جمنی تہذیب کا ایک عظیم شاہکار، وراثت انبیا کاصحیح پاسبان اور روح اسلام اور تصوف اسلامی کا صحیح ترجمان ہے۔ فقہائے ظاہری اور فقہائے باطنی کے ما بین توافق اور تطبیقی ہم آہنگی کا سچا امین ہے۔ اس کورس میں قدیم متن تصوف ’’الرسالة المكية‘‘،دیگر کتب تصوف اور مناہج صوفیہ کی صحیح روایات اور تراث کتب صوفیہ کا تعارف بالخصوص داخل درس ہے ۔نیز صوفیہ پر ہونے والے اعتراضات کی وضاحت اور ان کا بہتر اور سلیس جواب قرآن سنت سے مدلل دینے کا طریقہ بھی بتایا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں سلگتے ہوے مسائل کی فہم، تعصب مذہبی تعصب سے بچتے ہوے راجح اقوال کی طرف رہنمائی اور ساتھ ہی مذاہب اربعہ کا تعارف علمائے عرب وعجم کے فقہی ذخائر پر نظر اور ان کی تحقیقات پر تجزیاتی مطالعہ بھی بطور خاص شامل ہے، جس سے موجودہ فقہی خلجان کا خاتمہ اور رائے سدید کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ نصوص کی فہم تراثی کتب سے حتی الامکان باور کرایا جاتا ہے، جس سے جمود و تعطل کا خاتمہ اور فکری وسعت میں نئ امنگ جنم لیتی ہے اور اس کورس میں علوم قرآن،مناہج مفسرین، تفسیر اشاری کی تفہیم وتاویل؛ جرح و تعديل؛ اور رجال اسانید کی تحقیق جیسے اہم امور پر بھر پور توجہ دلائی جاتی ہے، جس سے ایک طالب علم کا ذہن کافی حد تک حساس و فعال ہو جاتا ہے۔ جب میں فضیلت کے فراغت کے بعد اس اس کورس میں داخل ہوا، تب لگا کہ اب صحیح معنوں میں پڑھائی شروع ہوئی ہے۔ علم کیاہے؟ تحقیق کسے کہتے ہیں؟ کھرے کھوٹے میں تمیز کیسے کریں؟ اس کورس کے بعد پتہ چلا، ورنہ وہی جمود وتعطل، وہی تقلید گروہی و شخصیاتی خمار، اللہ کی پناہ!! یہ ایک سالہ کورس میری زندگی کا ما حصل اور اہم موڑ تھا۔ یہ حقیقت ہے، جس سے میری ذات اور میرا ضمیر مطمئن ہے۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں