مدارس میں تحقیقی شعور کیسے بیدار ہو ؟
تحقیق فطرت انسانی کا داعیہ ہے ۔ہر لمحہ انسا ن تحقیق وتفتیش کے مراحل سے گزرتا ہے اور اپنے روز مرہ کے مسائل کا حل اور اس میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔دینی مدارس میں اسلامی علوم وفنون کی اعلی تعلیم اور تحقیق وتصنیف وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔خوش آئند ہے کہ بہت سے مدارس میں تحقیق وتصنیف کے باضابطہ شعبے قائم ہوئے ہیں اور اس میدان میں سرگرم عمل ہیں لیکن تحقیق کا جو معیار ہے اور جن اصول کے مطابق تحقیق ہونی چاہیے وہ مدارس اسلامیہ میں خا ل خال ہی نظر آرہا ہے ۔ضرورت ہے کہ مدارس اسلامیہ اپنے حلقوں میں تحقیقی شعور بیدار کریں اور طلبہ کے اندر تحقیقی شعور بیدار کرنے کی کوشش کریں ۔ذیل میں ان وجوہات کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے مدارس کے اندر تحقیق وتنقید کا شعور مغلوب سا ہو گیا اور دھیرے دھیرے طلبۂ مدارس کے ذہن سے تفکر وتدبر اور تفتیش وجستجو کا مادہ بھی معدوم سا پڑ گیا ۔
مدارس کے مقاصد کی محدودیت :مدارس اسلامیہ کا بنیادی مقصدایسے افراد پیدا کرنا ہے جن کے اندر دین کی تڑپ اور تبلیغ دین کا جذبہ ہو ۔جو دین اسلام کی آب یاری اور اس کی ترویج واشاعت سے مشن کی حد تک لگاؤ رکھتا ہو۔لیکن آج دینی مدارس کے اندر مقاصد سے دوری نظر آرہی ہے ۔مدارس کے جو دینی مقاصد تھے ان کی جگہ دنیاوی مقاصد نے لے لی ہے جس کا منہ بولتا ثبوت آج کےفارغین مدارس کا کردار وعمل ہے ۔آج کے مدارس میں الا ما شا ءاللہ اس لیے تعلیم دی جارہی ہے تاکہ طلبہ کسی اچھے کاروبار میں لگ جائے یا کسی اچھی جگہ امامت کے فرائض انجام دینے لگیں ۔جب کہ مدارس کا سب سے بنیادی اور اہم مقصد یہ ہے کہ وہ طلبہ کے ذہن وفکر کی ایسی پاکیزہ تربیت کرے جو تنہا ایک کنبے پر غالب آجائے ۔جہاں جائے انسان ان کے کردار میں رنگ جائے لیکن افسوس ان مقاصد کی جگہ غیر اور بے بنیادی مقاصد نے لے لی ہے ۔طبقہ مدارس کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مدارس اپنے مقاصد کے تحت سرگرم عمل رہے ۔
نصاب کی محدودیت :طلبہ مدارس کے اندر تحقیقی شعور نہ بیدار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ مدارس کے اندر نصاب کی محدودیت رہی ہےاور متعینہ محدود نصاب کو پڑھا یا گیا جس کی وجہ سے طلبہ کے ذہن کے اندر وسعت نہیں پیدا ہوئی اور ان کا ذہن ودماغ پورے طور پر بالغ نہ ہو سکا ۔اس حوالے سے میں یہ بات کہتا ہوں کہ اس دور انحطاط میں فارغین مدارس کا جائزہ لیا جا ئے تو آج بھی بعض قابل رشک اور بہترین صلاحیت کے مالک افراد نکل رہے ہیں اگر چہ ان کی تعداد دال میں نمک کے برابر ہے لیکن اکثریت کی طرف دیکھا جا ئے تو نتیجہ بر عکس ہے ۔
تخلیقی فکرکی حوصلہ شکنی :ایک اہم وجہ یہ بھی رہی کہ طبقہ مدارس کے اندر بعض طالب علم جس کے اندر فطری طور پر تخلیقی صفت پائی جاتی ہے ۔اس نے کسی ایسی چیز کی تخلیق کی جو بہت ہی اہمیت کی حامل ہے اور اس کام پر اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، نیز اسے اس سے بہتر کام کرنے پر ابھارنے کی ترغیب ہونی چاہیے اس کے بجائے اس کی اس تخلیقی فکر کی قدر نہیں کی جاتی اور اس کے کام کو گھٹیا اور کمتر سمجھا جاتا ہے ۔شخصیت اور ذاتیات تک محدود رکھا جاتا ہے اور اس دائرے سے ہٹنا مشرب سے ہٹنا تصور کیا جاتا ہے ۔
مطالعے کے دائرے کو تنگ کیا جانا :اسی طرح طلبہ کے اندر مطالعہ کی وسعت اور اس کے دائرےکو تنگ کیا جانا بھی ایک بنیادی سبب ہے جو انہیں تحقیق کے میدان میں قدم رکھنے سے روکتی ہے۔مطالعہ علم میں ترقی کا سبب ہے ،مطالعہ ہی سے ایک طالب علم ،علم کی دنیا میں ترقی کر تا ہے اس کے بغیر نہ کوئی تحقیق کرسکتا ہے اور نہ ہی تنقید ۔لیکن مطالعہ کیسا ،کتنا ،اور کس طرح ہونی چاہیے اس بات پر اساتذہ کرام کوتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔آج مدارس میں جو مطالعے کا دائرہ تنگ ہے اس کی بنیادی وجہ اساتذہ کرام ہیں ۔اس لیے کہ طالب علم کے اندر کون سا ہنر چھپا ہے اور وہ کس کمالیت کا مالک ہے اس کا صحیح ادراک اساتذہ کو ہی ہو تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ طالب علم کے اندر کمالیت کےجوہرکی پرکھ کی ذمہ داری اس کے اچھے اساتذہ پر عائد ہوتی ہے ۔ایک اچھے استاد کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ طلبہ کو کثرت مطالعہ او ر وسعت مطالعہ پر زور دے اور انہیں تدبر وتفکراور تعقل وبصیرت پر ابھارتا رہے ۔
طبائع طلبہ کے لحاظ سے میدان فکر وتحقیق کا تعین :علم کے میدان میں ذوق وطبائع کا بہت بڑا دخل ہے ۔ہر انسان اپنے اپنے ذوق کے مطابق کسی نہ کسی فن کو اختیار کرتا ہے اور اس فن میں کامیابی حاصل کرتا ہے ۔بے ذوق کسی فن کو اختیار کرنا علم کے میدان میںاپنے قدم کو بے سمت رکھنا ہے ۔اس لیے کہ ایک طالب کاذوق فیزکس میں ہے اور وہ پولیٹیکل سائنس کوا ختیار کرے تو وہ نہ تو فیزکس سیکھ سکتا ہے نہ ہی سائنس پڑھ سکتا ہے، اس لیے طالب علم کا ذوق جس فن میں ہو، اسے اسی فن کو اختیار کرنا چاہیے اور اس میں محنت کرنی چاہیے ۔
آج مدارس میں اس حوالے سے جو کمزوریاں دیکھنے کو ملتی ہیں اس کا سہرا اساتذہ کے سرجاتا ہے ،کیوں کہ طلبہ کے اندر کس چیز کا ذوق ہے اس کا تعین ان کے ماہرین اساتذہ کرتے ہیں اور اس کا صحیح ادراک وہی کر سکتے ہیں ۔جو طلبہ تحقیق وتالیف کے میدان میں شغف رکھتے ہیںاور اس فن سے اسے دلچسپی ہے انہیں تدریس کے میدان میں لگا دیا جاتا ہے جو ان کی زندگی سے کھیلواڑ کرنے کے مشابہ ہے کیوں کہ انسان کو جس چیز کا ذوق ہوتا ہے اگر وہ چیز اسے مل جائے تو اس چیز کو وہ بہت ہی اچھے طریقے سے انجام دے سکتا ہے اور اس میں بڑی گہرائی اور گیرائی پیداکر سکتا ہے ۔اگر اس کے ذوق طبع کے مطابق نہیں ہوتا تو کچھ نہیں کر پاتا ۔اگر کر بھی لیتا ہے تو و ہ کام ادھورا رہتا ہے پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قاصر رہ جاتا ہے ۔
نیز طالب علم کی صحیح رہنمائی بھی اس کی زندگی کو تابناک بناتی ہے۔ اگر اس کے ماہر اساتذہ اس کی صحیح رہنمائی کردیں تو وہ اپنی زندگی کے رخ کو صحیح موڑ پر لے جاسکتا ہے۔ اگر اس کی صحیح رہنمائی نہیں ہوتی تو وہ اپنی بے تجرباتی زندگی سے کسی ایسے موڑ کا انتخاب کر لیتا ہے جو اسے ناکامی سے ہمکنار کرتی ہے ۔
اس لیے اساتذہ کو طالب علم کے مستقبل کو تابناک بنانے کی فکر ہو نی چاہیے اور ساتھ ساتھ اس کی صحیح رہنمائی بھی ہو نی چاہیے تاکہ طلبہ علم کے میدان سے منسلک رہے اور اپنے آپ کو علمی دنیا میں ترقی کی راہ پرآگے بڑھا سکے ۔آج طبقہ مدارس میں ا ن مذکورہ باتوں کی طرف عدم توجہی سے تحقیقی شعور بیدا ر نہیں ہو پا رہا ہے ۔اگر ان باتوں کا لحاظ کیا جا ئے تو طبقہ مدارس کا تحقیق وتصنیف میں جو کردار ہونا چاہیے وہ عود کر آئے گا۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں