الدبلوم العالی فی الدعوۃ والعلوم الاسلامیۃ
تحقیق و تفکیر کی دعوت
اس پر فتن ماحول میں جب کہ طلبۂ مدارس کے اندر ذہنی جمود اور فکری تعطل کی بہتات ہے ،جس کے سبب علم وتحقیق کی ساری راہیں مسدود ہوتی نظر آتی ہیں اور طلبہ کے اندر علمی جولانیت ، فکر ی بلندی ، تحقیقی اور تجزیاتی نظر اور اکابرینِِ امت کے مواقف کے دلائل سے واقفیت جس طرح ہونی چاہیے، وہ یکسر معدوم ہے۔ ایسے میں طلبہ کے اندر تحقیق وتنقید کا اعلیٰ شعور پیدا کرنا از حد ضروری ہےاور ایسے فکر وشعور کے لیے ضروری ہے کہ انھیں اندھی عقیدت کی کال کوٹھری سے نکال کروسیع الفکری اور وسعتِ قلبی کے میدان میں لاکھڑا کیا جائے اور پھر انھیں اس بات کی بھی یاددہانی کی جائے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک بات اگر ہمارے کسی بزرگ نے کہی ہےتو وہی حق ہے اور اس کے علاوہ سارے اقوال باطل اور فاسد ہیں بلکہ ایسابھی ہوسکتا ہے کہ ہمارےوہ بزرگ مشقِِ پیہم اور جہدِ مسلسل کے باوجودبعض مسائل میں حق تک نہ پہنچے ہوں؛ کیوں کہ اصابتِ حق اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتا ہے۔یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ا ن کے زمانے میں مسئلہ کی نوعیت وحقیقت کچھ اور رہی ہو اور ہمارے زمانے میںحالات بدل گئے ہوں ۔
اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ ہمارے اکابر نے جن مسائل کی تحقیق کی ہے ایسا نہیں ہے کہ ان مسائل میں اب از سرِ نو تحقیق نہیں ہوسکتی یا جن مسائل کو ہمارے اکابر نے چھوڑ دیا ہے ان مسائل کا بیان اب نہ کیا جائے بلکہ ہر زمانہ میں عرف اور لوگوں کی حالتیں امتدادِ زمانہ کی بنیاد پر بدلتی رہتی ہیں اور سیکڑوں مسائل ایسے ہیں جو ہر زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں، جن کی تحقیق اس زمانے کے ماہر مفتی اورعالم کی عین ذمہ داری ہے ۔
جب ہم جامعہ عارفیہ کے شعبۂ دعوہ کے نظامِ تعلیم پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ ساری باتیںاور خوبیاں اس کے اندربہت حد تک موجود نظر آتی ہیں۔ جامعہ عارفیہ صرف ایک مدرسہ نہیں ہے بلکہ تعلیم و تربیت اور تحقیق و تفکیر کا ایک حسین امتزاج ہے۔اس میں جہاں ایک طرف قال اللہ وقال الرسول کا درس دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ضربِ لاالٰہ الااللہ سےقلوبِ کُشتہ میں زندگی کی رمق ڈالی جاتی ہے۔ جہاں قرآن وحدیث کی تعلیم سے ان کے ذہن وفکر کو صیقل کیا جاتا ہے وہیں دوسری جانب تصوفانہ مزاج ومذاق سے ان کے قلوب کا تزکیہ بھی کیا جاتا ہےاور جہاں انھیں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابرینِِ امت کا باادب بنایا جاتا ہے وہیں تحقیق وتفتیش اور تنقیدو تجزیہ کے راستوں سے بھی آشنا کیا جاتا ہے ۔ اس مدرسہ کے شعبۂ دعوہ کا نظامِ تعلیم اس قدر منظم اور مربوط ہے کہ بعض طلبہ فضیلت وافتا کی دستار کے بعد بھی اس شعبہ میں داخلہ کے مشتاق ہوتے ہیں اور ان کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس مدرسہ میں شعبۂ دعوہ کا دو سالہ کورس کریں اوراپنے اندر تحقیقی فکر اور تنقیدی شعور کو پروان چڑھائیں اور ثانوی مآخذ ومصادر سے اٹھ کر اصل مآخذ ومصادر تک مراجعت حاصل کریں۔
Related Article
المختصر یہ کہ آج کے اس ماحول میں تحقیق وتنقید اور تفتیش وتفحص کے لیے جن اصول وضوابط کی ضرورت پڑتی ہے جامعہ عارفیہ کے شعبۂ دعوہ کے اندر ان ساری چیزوں کی فراہمی کی کوشش کی جاتی ہے ۔لہٰذا ہر نوفارغ طالبِ علم کو چاہیے کہ وہ اس ادارہ کے شعبۂ دعوہ میں کم ازکم دوسال وقف کرے تاکہ اس نے فضلیت تک جو تعلیم حاصل کی ہے اسے عملاً برتنے کے آداب سےآشنا ہو ۔ یہاں آکر اسے اس بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ آج مدارس میں جس طرح کاتعلیمی نطام ہے اس میں کس قدر ترمیم وتبدیل کی ضرورت ہے اور اسے تحقیقی بنانے کے لیے کتنے مراحل سے گزرنا پڑےگا۔
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں