ظاہری اور باطنی گناہ
مولانا اشتیاق عالم مصباحی
’’وَذَرُواْ ظَاہِرَ الإِثْمِ وَبَاطِنَہ۔‘‘(سورہ انعام :۱۲۰)
ترجمہ:کھلا گناہ اور پوشیدہ گناہ کو چھوڑدو۔
اثم :
اثم کامعنی گناہ ہے ،اصطلاح میں ہر وہ عمل جس کا حکم شریعت نے دیا ہے اُسے نہ کرنااور جس سے منع کیا ہے اُس کا کرنا گناہ ہے،خواہ وہ گناہ انسان کے ظاہربدن سے ہو یا دل سے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:’نیکی‘ اچھے اخلاق ہیں اور ’گناہ ‘وہ کام ہیں جو تمہارے دل میں اضطراب پیدا کردیں جن کا ظاہر ہونا تمہیں نا پسند ہو۔(مسلم )
دوسرے مقام پررسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے۔(مسلم)
ظاہر اثم اور باطن اثم کا مطلب
۱۔ظاہر گناہ سے مراد ایسا عمل ہے جس پر قرآن وحدیث میں مذمت کی گئی ہویا جسے دنیا کے لیے کیا گیا ہو،اورباطن گناہ سے مراد وہ کام ہیں جن میں شہرت وعزت کا جذبہ ہو۔
۲۔ ظاہر گناہ سے مراد وہ گناہ ہے جو کھلے عام کیا جائے اور باطن سے مراد پوشید ہ گناہ ہے، مثلا کھلے عام بدکاری کرنا ظاہر گناہ اور چھپ کر بدکاری کرنا باطن گناہ ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’ قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَن۔‘‘( اعراف، آیت: ۳۳)
ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ میرے رب نے کھلے عام اور چھپ چھپ کر زنا کرنے کو حرام کردیاہے ۔
۳۔ جس گناہ کا علم مخلوق کو ہوجائے وہ ظاہر ہے اور جسے بندہ اور اللہ جانتاہو وہ باطن ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ برے کام اور بری باتیں جو ظاہری اعضاسے ہوں وہ گناہ ظاہر ہیں اور فاسد عقیدہ اور برے ارادے گناہ باطن ہیں۔
۴۔دنیا کی نعمتیں طلب کرنا ظاہر گناہ ہے اور آخرت کی نعمتوں کی خواہش کرنا ،باطن گنا ہ ہے، کیونکہ دنیا اور آخرت دونوں کی طلب اللہ رب العزت سے باز رہنے کا سبب بنتی ہیں ۔
ظاہر گناہ
شرک:اللہ کی ذات ،صفات ،افعال ،احکا م اور اسما میں غیر کو شریک سمجھنا اور عبادت کے لائق جاننا یہ شرک ظاہری ہے اور اگر دکھاوے کے لیے کوئی بھی عمل کرے تو وہ شرک خفی ہے ،اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
’’ وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ أَحَداً۔‘‘(کہف:۱۱۰) اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو ۔
اللہ جل جلالہ نے تمام انبیا کو توحید کی دعوت دینے اور شرک سے پاک رکھنے کے لیے بھیجا ،کیوں کہ شرک ایسا گناہ ہے جس کی بخشش نہیں ہوسکتی۔
کفر :یعنی ضروریات دین(اللہ ،نماز ،روزہ،حج،زکوۃ) کا انکار کرنا ۔واضح رہے کہ یہاں کفر سے مراد کفر اعتقادی ہے، اسی طرح عملی کفر بھی ہوا کرتا ہے کہ انسان اللہ کو معبود جانے، نماز ، روزہ ،حج اورزکوۃ کا اقرار کرے لیکن اسے عمل میں نہ لائے تو اسے عملی کفرکہا جاتا ہے ، عملی کفر کی دو صورتیں ہیں :
٭ایک ظاہر
٭دوسرا باطن
ظاہریہ ہے کہ نمازاور دیگر ارکان ادا نہ کرے اور باطن یہ ہے کہ نماز اور دوسرے عبادات بجالائے لیکن ان عبادتوں میں اللہ سے غافل رہے ۔
قتل :ناحق کسی کا خون بہانا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً۔‘‘(سورہ مائدہ:۳۲)
یعنی جو ناحق کسی کا خون بہائے یا زمین میں فساد پھیلائے تووہ تمام انسانوں کا قاتل ہے ۔
چوری :خفیہ طریقے سے کسی کا مال لے لینا ،اللہ نے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا مقرر کیا ہے، ارشادہے:’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا۔‘‘(سورہ مائدہ:۳۸)
ترجمہ:چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا دایا ںہاتھ کاٹ دو۔
ظلم:یہ ایسا لفظ ہے جس کا دائرہ بہت وسیع ہے، یہ تمام گناہوں کو شامل ہے، کیونکہ ظلم کا معنی ہے کسی چیز کو اس کے محل اور اس کے رتبے کے مطابق نہ رکھنا، اللہ رب العزت فرماتاہے:’’اَللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظَّالِمِیْن۔‘‘اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا(آل عمران:۵۷)
غیبت :یعنی ایسا کام جس سے اپنے بھائی کا عیب ظاہر ہو۔ قرآن مقدس میں غیبت کی بڑی مذمت کی گئی ہے، اللہ فرماتاہے : غیبت کرنے والا اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے والے کی طرح ہے ۔اس کے علاوہ واجبات کا ترک کرنا اورکسی بھی حرام کا م کا کرنا بھی ظاہرگناہ ہے ۔
باطن گناہ
حسد :کسی کی نعمت ختم ہوجانے کی خواہش کرنا، قرآن مقدس میں ہے : ’’أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہ۔‘‘ (نسا:۵۴)یعنی کافرین مومنین کی نعمتیں مٹ جانے کی خواہش کرتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑیوں کوکھا جاتی ہے(ابو دائود)
عجب :کسی نعمت کو بڑا جاننا اور اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف نہ کرناقرآن میں ہے:’’ وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعا۔‘‘ (کہف:۱۰۴)
وہ اس گمان میں پڑے ہیں کہ اچھا کا م کررہے ہیں۔
کبر:یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اس میں لذت محسوس کرنا، قرآن مقد س میں کبر کی بڑی مذمت آئی ہے اللہ فرماتاہے:’’ فَلَا تُزَکُّوا أَنفُسَکُمْ ہُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَی۔‘‘ (نجم:۳۲)
ترجمہ:اپنے آپ کو پاک مت سمجھو، اللہ کو معلوم ہے کہ کون تم میں سے پرہیز گار ہے۔
ریا: دکھاوے کے لیے نیک عمل کرنا،اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’فَوَیْْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ، الَّذِیْنَ ہُمْ عَن صَلَاتِہِمْ سَاہُونَ ، الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَاؤُونَ۔‘‘ (ماعون:۴،۵)
ترجمہ:ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اور دیکھاوے کے لیے عمل کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ بہت سارے گناہ ہیں جن کا قرآن پاک میںبیان آیاہے،مثلامسلمانوں کابراچاہنا،تعظیم کاخواہاں ہو نا وعدہ خلافی کرنا،خیانت کرنا وغیرہ ۔
گناہ چھوڑنے کے فوائد
جب انسان ظاہر ی اور باطنی گناہوں سے محفوظ ہوتاہے تو اللہ تعالی اسے ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :’’وَأَسْبَغَ عَلَیْْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃ۔‘‘ (لقمان:۲۰)
یعنی اللہ نے تم پرظاہری اور باطنی نعمتیں مکمل کردیں ۔
بعض مفسرین کا کہناہے کہ ظاہرنعمت کا مطلب امن وعافیت ہے،یعنی بدن انسانی مصائب وتکالیف سے محفوظ رہے اور باطن نعمت سے مراد اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش ہے ۔ بعض نے ظاہر نعمت سے مراد اچھی صورت اور باطنی نعمت سے مراد اچھی سیرت بتایاہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ’’ اللھم کما حسنت خلقی فحسن خلقی۔‘‘ (رواہ احمد)
یعنی اے اللہ! جس طرح تو نے اچھی صورت عطا کی ہے اسی طرح میری سیرت بھی اچھی بنا دے ۔
تفسیر حسینی میں ہے کہ سب سے مشہور ظاہر ی نعمت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور باطنی نعمت فرشتوں کا مددکرنا ہے،اسی طرح ایک خدا کااقراراور اس کی تصدیق کرنا زبان و دل سے اللہ کا ذکر کرنا اورنبوت و ولایت ہے ۔یہ سب ظاہری اور باطنی نعمت ہیں۔
علامہ روزبہان بقلی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:
’’ اچھی صورت وسیرت ،گناہوں سے بچنا ،خالص عبادت ،صحت وسلامتی اور روحانی وربانی انوار سے منور ہونا، ظاہری نعمت ہے اور باطنی نعمت سے مراد غیب قبول کرنے کی صلاحیت ،کامل عقل وایمان اور اخلاص وتوحید پر قائم رہناہے ــ۔۔۔۔‘‘
گناہ سے بچنے کے طریقے
گناہوں سے بچنے کاسب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ انسان کے دل ودماغ پر یہ چھا جائے کہ اللہ رب العزت ہر حال میں اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ،ہمارا چلنا پھرنا ،اٹھنا بیٹھنا ،لوگوں سے ملنا جلنا اور چپکے چپکے باتیں کرنا،اِن تمام چیزوں سے وہ واقف ہے ۔
قرآن پاک میں ہے: ’’اگر اللہ چاہے تو ان کی نگاہوں کی روشنی ختم کردے، پھر وہ تیزی سے راستے کی طرف بھاگے اور کچھ بھی نہ دیکھ سکے یا انھیں ان کے مکانوں میں ہی ہلاک کر دے پھر نہ آگے بڑھ سکے اور نہ پیچھے لوٹ سکے۔ ‘‘( یٰس،آیت:۶۶،۶۷)
اگرانسان کے دل ودماغ میں یہ بیٹھ جائے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے تو وہ ہر گنا ہ سے بہ آسانی بچ سکتاہے ،یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کسی شیخ کامل کی صحبت نصیب ہو ،جو ہر آن انسان کو خطائوں سے آگاہ کرکے اچھائیوں کی جانب رغبت دلائے ۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بندہ میٹھی نیند سے جب بیدار ہو تو اپنے نفس سے معاہدہ کرے کہ آج کوئی ایسا عمل نہ کروں گا جو اللہ کے غضب اور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب بنے، پھراپنے اس وعدے کے مطابق مسلسل خیر کی کوشش کرتا رہے اور جب کسی ایسے بندہ سے ملاقات ہو جس کی صحبت میں بیٹھنے سے خدا یاد آئے یا جس کی باتوں سے ایمانی قوت میں اضافہ ہو یا مخاطب کے دل میں اس کی باتوں سے ایمان کی شمع روشن ہو جائے تو اس سے اللہ ورسول کا ذکر سنے اور سنائے پھر جب بستر پر جائے تو پورے دن کا محاسبہ کرے کہ ہم سے کہاں کہاں چوک ہوئی اور اس دن کا کتنا حصہ ہم نے ذکر مولیٰ میں گذارا، اور کس قدر غفلت میں پڑے رہے ۔
اب جبکہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کر چکا تومراجعہ کرے،یعنی اللہ کی جانب مائل ہو اور اپنے گناہوں سے توبہ کرے۔پھرمراقبہ کرے، یعنی یاد الٰہی میں ڈوب جائے اور اللہ اللہ کرتے سو جائے ۔یہ وہ قیمتی نسخہ ہے کہ انسان اگر اپنی زندگی میں نافذ کر لے تو اللہ کا سچااور پکا نائب بن سکتا ہے ۔
اے اللہ :تو ہمیں گناہوں سے بچا اور اپنی نعمتوں سے مالا مال فرما، کیو نکہ گناہوں سے بچنے کی طاقت اور عبادت کی قوت تو ہی عطا کرنے والاہے ۔
Related Article
0 تبصرے
اپنی رائے پیش کریں